کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 345
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
(( فَرَفَعَتْ اِلَیْہِ الْمَرْأَۃُ صَبِیّاً فَقَالَتْ:اَلِھَٰذَا حَجٌّ ؟ ))
’’ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک بچے کو اٹھایا اور پوچھا: کیا اس کا حج ہے؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( نَعَمْ، وَلَکِ أَجْرٌ )) [1]
’’ہاں، اور تجھے اس کا ثواب ہوگا۔‘‘
اس حدیث میں ان لوگوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچاننے اور سوال کرنے کہ آپ کون ہیں؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یا تو یہ ملاقات رات کے اندھیرے میں ہوئی ہوگی اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ پائے ہوں گے۔ اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ملاقات تو دن کو ہی ہوئی ہو مگر وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانتے ہوں کہ اپنے اپنے شہروں اور علاقوں میں وہ لوگ مسلمان تو ہوچکے ہوں مگر ہجرت کرکے ابھی مدینہ نہ پہنچے ہوں اور اس سے پہلے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ پائے ہوں، اور ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہو جن کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی کی آواز پہنچی ہو کہ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج پر جانے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر تو صحیح مسلم ہی کی حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مذکور ہے :
[1] اس حدیث کو مسلم (۹/ ۹۹، ۱۰۰) اسی طرح مالک (۱/ ۴۲۲) ابو داود (۱۷۳) نسائی (۵/ ۱۲۰، ۱۲۱) ابن خزیمہ (۳۰۴۹) بیہقی (۵/ ۱۵۵، ۱۵۶) طیالسی (۱/ ۲۰۴) احمد (۱/ ۱۲۹، ۲۴۴، ۲۸۸، ۳۴۴) اور ابو یعلی (۲۴۰۰) نے روایت کیاہے۔ یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس کو ترمذی (۹۲۴) ابن ماجہ (۲۹۱۰) طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۷۶۳، ۱۲۷۹) میں، ابن جمیع نے ’’معجم الشیوخ‘‘ (ص: ۲۲۴) میں اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔ اور یہ بھی صحیح حدیث ہے۔