کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 340
رَمی کے لیے وکیل مقرر کرنا: یومِ نحر اور ایامِ تشریق میں جمرات پر اتنی بِھیڑ ہوتی ہے کہ کمزوروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا وہاں خود جا کر رمی کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ ایسے میں بعض لوگ اپنے کسی ضعیف یا بوڑھے کو جمرات پر پہنچانے کے لیے بڑا عجیب طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ صرف ایک شخص یا بعض خواتین کی خاطر وہ ہزاروں لوگوں کو دھکیلتے اور پھینکتے جاتے ہیں حالانکہ یہ رویہ نہ توحجرِ اسود کے بوسہ کے لیے ہی درست ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عمرِ فاروق صلی اللہ علیہ وسلم کو وصیّت ’’طوافِ قدوم‘‘ کے ضمن میں گزری ہے، اور نہ ہی یہ طریقہ جمرات پرمناسب ہے بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے تو اِسے مکروہ قرار دیتے ہوئے ترمذی شریف میں ایک باب ہی یوں منعقد کیا ہے: ’’بابُ ماجاء فِي کراہیۃ طَرد الناسِ عندَ رمي الجمارِ‘‘ اس باب کے تحت ہی وہ حضرت قدامہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث لائے ہیں جو کہ سنن نسائی و ابن ماجہ میں بھی مروی ہے؛ جس میں وہ بیان کرتے ہیں: (( رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَرْمِي الْجِمَارَ عَلـٰی نَاقَتِہٖ لَیْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَا اِلَیْکَ اِلَیْکَ )) [1] ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر بیٹھے (یومِ نحر کی) رمی کرتے ہوئے دیکھا مگر وہاں کوئی مار دھاڑ، دھکم پیل، اور ہٹ جاؤ ہٹ جاؤ کا شور نہیں تھا۔‘‘
[1] ترمذی (۹۰۳) نسائی (۵/ ۲۷۰) ’’باب الرکوب إلی الجمار‘‘ ابن ماجہ (۳۰۳۵) ’’باب رمی الجمار‘‘ اسی طرح اس حدیث کو طیالسی (۱/ ۲۲۳) احمد (۳/ ۴۱۳) دارمی (۲/ ۶۲) فاکہی (۴/ ۲۸۷) ابن خزیمہ (۲۸۷۸) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۹/ ۳۸) میں، ابن عدی (۱/ ۴۲۴۔ ۴۲۵) ابو الشیخ نے ’’الاخلاق‘‘ (۵۶) میں، ابو نعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ (۷/ ۱۱۸) میں، بیہقی (۵/ ۱۳۰) اور البکری نے بھی ’’الاربعین‘‘ (۱۳۷) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ ترمذی اور ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہاہے۔