کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 332
مشکل الآثار طحاوی میں موصولاً مروی ہے:
(( کَانَ صلي اللّٰه عليه وسلم یَزُوْرُ الْبَیْتَ کُلَّ لَیْلَۃٍ مِنْ لَیَالِيْ مِنَیٰ )) [1]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے ہر رات کو بیت اللہ کی زیارت وطواف کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔‘‘
ذِکر و عبادت:
منیٰ میں قیام کا عرصہ ذکر وعبادت میں گزاریں کیونکہ سورئہ بقرہ میں ارشادِ الٰہی ہے:
{وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ} [البقرۃ: ۲۰۳]
’’اِن گنتی کے دنوں (ایامِ منیٰ) کو ذکرِ الٰہی میں بسر کریں۔‘‘
مسجدِ خیف میں نمازیں:
ممکن ہو تو بہتر یہ ہے کہ ان ایام کی نمازیں منیٰ میں واقع ’’مسجدِ خیف‘‘ میں ادا کی جائیں کیونکہ اس سلسلے میں معجم طبرانی کبیر و اوسط اور المختارۃ للضیاء المقدسی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً حدیث مروی ہے جسے امام منذری رحمہ اللہ نے حسن قرار دیاہے اور شیخ البانی نے ان کی تائید کی ہے۔ (دیکھیے: تحذیر الساجد من اتخاذ القبور المساجد،ص: ۷۳)
نیز ’’أخبار مکۃ‘‘ للازرقي (ص: ۳۵) سے ایک دوسرا موقوف طریق بھی ذکر کیا ہے جس میں ہے:
(( صَلَّـٰی فِيْ مَسْجِدِ الْخَیْفِ سَبْعُوْنَ نَبِیّاً )) [2]
[1] دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۲/ ۴۵۶) ومناسک الحج والعمرۃ (ص: ۴۱) [مؤلف]
[2] مرفوع حدیث کو فاکہی نے ’’اخبارِ مکۃ‘‘ (۴/ ۲۶۶) میں، طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۴۵۳) میں روایت کیاہے۔ شیخ البانی نے ’’تحذیر الساجد‘‘ میں اس کو طبرانی کبیر کے علاوہ اوسط (۱/ ۱۱۹/ ۲۔ زوائدہ) اور مقدسی کی ’’الأحادیث المختارۃ‘‘ وغیرہ کی طرف بھی منسوب کیاہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں عطا ء بن السائب ہیں آخر میں ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا اور اس حدیث کو ان سے بیان کرنے والے محمد بن فضیل ہیں اور ان کی عطاء سے روایات ضعیف ہیں، بلکہ ابوحاتم نے کہا ہے کہ محمد بن فضیل کی عطاء سے جو روایات ہیں ان میں غلطی اور اضطراب پایا جاتا ہے، اس نے وہ اشیاء جنھیں عطاء تابعین سے روایت کرتاہے، صحابہ سے منسوب کر دی ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’الجرح والتعدیل‘‘ (۶/ ۳۳۴) و ’’تہذیب التہذیب‘‘۔ موقوف روایت کو ازرقی نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۱/ ۶۹، ۲/ ۱۷۴) میں اور فاکہی نے بھی ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۴/ ۲۶۹) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ازرقی نے ابن عباس سے اسے ایک دوسری سند سے بھی روایت کیاہے۔ (ملاحظہ ہو: ۱/ ۷۲، ۷۳) مگر اس سند میں ایک مجہول راوی ہے۔
شیخ البانی نے ’’تحذیر الساجد‘‘ میں مرفوع اور موقوف دونوں کو ملا کر اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ واللہ اعلم
اس بارے میں سعید بن المسیب اور مجاہد سے بھی مقطوع روایتیں مروی ہیں یعنی ان کے اپنے اقوال ہیں مگر دونوں قول ضعیف ہیں۔
سعید بن المسیب کے قول کو فاکہی (۴/ ۲۶۸، ۲۶۹) نے روایت کیاہے۔ اور مجاہد کے قول کو فاکہی اور ازرقی (۲/ ۱۷۴) نے روایت کیا ہے اس قول میں ستّر کی بجائے پچھتر نبیوں کا ذکر ہے۔