کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 33
یا قربانی کرے ۔ پھر اگر تمھیں امن نصیب ہوجائے (اورتم حج سے پہلے مکہ پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسبِ مقدور قربانی دے اوراگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اورسات گھر پہنچ کر، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر مسجدِ حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اورخوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ، جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی اور کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اورجو نیک کام تم کروگے وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ اورسفر حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ اورسب سے بہتر زادِ راہ پرہیز گاری (بھیک سے بچنا) ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو تومشعرالحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے تو تم بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے دوسرے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں (عرفات) سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ پھر جب اپنے حج کے ارکان اداکر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباء واجداد کاذکر کرتے تھے، اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیاہی میں سب کچھ دے دے، ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!