کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 329
رکعتیں پڑھیں، کیونکہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق میں موصولاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:
(( عَلَیٰ کُلِّ سُبُعٍ رَکْعَتَانِ )) [1]
’’طواف کے ہر سات چکروں کے بعد دو رکعتیں ہیں۔‘‘
بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق و مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھاکرتے تھے۔[2]
ان دو رکعتوں سے فارغ ہوکر روزہ نہ ہو تو جی بھر کر آبِ زمزم پئیں اور پھر استلامِ حجرِ اسود کے بعد طوافِ قدوم وسعی کے ضمن میں گزری تفصیل کے مطابق صفا و مروہ کے مابین سعی کریں۔ اب اس سعی کے بعد حلق یا تقصیر کسی کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ منیٰ میں یہ کام کرکے آپ احرام اتارچکے ہیں۔
[1] اس کو بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ۳/ ۴۸۴- الفتح) عبدالرزاق (۹۰۰۱۲) اور عبدالرزاق سے فاکہی (۱/ ۲۱۸) نے موصولاً روایت کیاہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
[2] اس کو عبدالرزاق (۸۹۹۴) ابن ابی شیبۃ (۳/ ۳۴۷- دارالتاج) فاکہی (۱/۳۳۱) اور عقیلی (۳/ ۶۶) نے مختلف سندوں سے زہری سے روایت کیا ہے اور یہ روایت مرسل ہے۔
تنبیہ: زہری سے ہی مروی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک موصول روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے تین طواف کیے اور آخر میں چھ رکعت (اکٹھی ہی) ادا کیں۔ اسے عقیلی نے روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہوـ ۳/ ۶۶) مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے، کیونکہ اسے زہری سے بیان کرنے والا عبدالسلام بن ابی الجنوب ہے اور یہ سخت ضعیف ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حبان نے ’’المجروحین‘‘ (۳/ ۱۴۳) میں مسور بن مخرمہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا یا رسول اللہ! میں نے دو طواف کیے اور پھر چار رکعتیں ادا کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَحْسَنْتَ )) ’’تونے اچھا کیا۔‘‘ مگر اس کی سند بھی یاسین بن معاذ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔