کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 327
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ نحر میں قربانی کی اورمکہ مکرمہ چلے گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔‘‘ اس سے بھی واضح الفاظ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: (( ثُمَّ رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَاَفَاضَ اِلیٰ الْبَیْتِ، فَصَلَّـٰی بِمَکَّۃ الظُّھْرَ )) [1] ’’اس (قربانی کا گوشت کھانے اور شوربا پینے) کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ شریف کی طرف (طواف کے لیے) چلے گئے اور نمازِ ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ہی ادا فرمائی۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ نحر کو ہی طوافِ افاضہ بھی دوپہر کے وقت کر لیا تھا، لہٰذا مسنون تو یہی ہے لیکن اگر کوئی عذر (حیض یا بیماری) ہو تو ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳/ ذوالحج) ہی میں سے کسی دن کر لینا چاہیے۔ یہی بہتر ہے ورنہ جب عذر و مجبوری زائل ہو، واپسی سے پہلے پہلے یہ طواف کرلیں اور اس تاخیر پر کوئی فدیہ بھی نہیں۔ (المغني: ۳/ ۳۹۶، بلوغ الأماني: ۱۲/ ۲۰۴، ۲۰۵) طوافِ افاضہ کاطریقہ وآداب: اس طوافِ افاضہ کاطریقہ اورآداب وہی ہیں جن کا ذکر طوافِ قدوم (طوافِ عمرہ، طوافِ ورود یا طوافِ تحیہ) میں گزر چکا ہے سوائے اس کے کہ اس میں رمل اور اضطباع مشروع نہیں ہے کیونکہ سنن ابو داود و ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( اَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمْ یَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِیْ اَفَاضَ فِیْہِ )) [2]
[1] اس حدیث کی تخریج کے لیے نمبر (۱۹۳) دیکھیں۔ [2] ابو داود (۲۰۰۱) ابن ماجہ (۳۰۶۰) ابن خزیمۃ (۲۹۴۳) حاکم (۱/ ۴۷۵) نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ ابن خزیمہ نے اس کوصحیح کہا ہے۔ حاکم نے اس کو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے مگر اس کی سند میں ابن جریج ہیں اور یہ مدلس ہیں اور انھوں نے اس حدیث کو عطاء سے بیان کرتے ہوئے تحدیث یاسماع کی صراحت نہیں کی ہے مگر شیخ البانی کے کہنے کے مطابق ابن جریج عطاء سے اگر کسی روایت کو لفظ ’’عن‘‘ سے بھی بیان کریں تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔ دیکھیں: ’’ارواء الغلیل‘‘ (۳/ ۹۷/ ۶۳۹)