کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 324
اقامت گاہ پرآئے اور قربانی کی، پھر بال کاٹنے والے کو بلایا اور اس کے سامنے اپنے سرِ اقدس کا دایاں پہلو کیا، پھر حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلاکر یہ بال انھیں پکڑا دیے، پھر سرِ اقدس کا بایاں پہلو بال کاٹنے والے کی طرف کرکے فرمایا: مونڈو، اس نے وہ پہلو بھی مونڈ دیا، وہ بال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کوپکڑائے اور فرمایا: یہ لوگوں میں بانٹ دو۔‘‘ حلقِ رأس کاحکم صرف مردوں کے ساتھ خاص ہے، عورتوں پرصرف تقصیر ہے، کیونکہ سنن ابو داود و دارمی اور دارقطنی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( لَیْسَ عَلَی النِّسَآئِ حَلْقٌ، اِنَّمَا عَلَی النِّسَآئِ التَّقْصِیْرُ )) [1] ’’عورتوں کے لیے سر منڈوانا نہیں ان کے لیے کچھ بال کاٹنا ہی کافی ہے۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب قصر کرنا ہو تو بالوں کو جمع یعنی اکٹھے کرکے ان میں سے انگلی کے پَورے کے برابر کاٹ لیے جائیں اور اس میں معمولی کمی بیشی ہو تو بھی حرج نہیں۔ مرد اس سے زیادہ بھی کاٹ سکتے ہیں مگر عورتیں ایک پَورے سے زیادہ نہ کاٹیں۔ (بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ، ص: ۳۸، تفصیل کے لیے دیکھیے: المغني: ۳/ ۳۹۵) سر کے بالوں کے بعد ناخن وغیرہ کاٹنا بھی علّامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق مسنون ہے۔ (زادالمعاد: ۲/۲۷۰ محقق)
[1] ابو داود (۱۹۸۴، ۱۹۸۵) دارمی (۲/ ۶۴) دارقطنی (۲/ ۲۷۱) اسی طرح اس کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۲/ ۲۵۰) میں، بیہقی (۵/ ۱۰۴) اور خطیب بغدادی نے بھی ’’الموضح‘‘ (۱/ ۴۲۷، ۴۲۸) میں روایت کیا ہے۔ اس کو ابو حاتم و بخاری نے قوی اور ابن حجر نے حسن کہا ہے۔ دیکھیں: ’’علل الحدیث لابن أبي حاتم‘‘ (۱/ ۲۸۱) ’’تلخیص الحبیر‘‘ (۲/ ۲۶۱)