کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 320
ابو داود میں مذکور ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا:
(( نَحَرْتُ ھٰھُنَا، وَمِنٰی کُلُّھَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوْا فِيْ رِحَالِکُمْ )) [1]
’’میں نے یہاں قربانی کی ہے جبکہ ساری وادی منیٰ ہی جائے قربانی ہے۔ بے شک اپنی اقامت گاہوں پر ہی قربانی کر لو۔‘‘
سنن ابو داود، دارمی، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں مروی ہے:
(( کُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَمَنْحَرٌ )) [2]
’’پورا مکہ ہی راستہ ہے (چاہے جہاں سے داخل ہو جاؤ اور چاہے جہاں سے نکل جاؤ) اورپورا شہرِ مکہ ہی قربان گاہ ہے۔‘‘
ھَدْی (حجاج کی قربانی) میں اشتراک:
اگر کوئی شخص اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ اکیلا ہی جانور خرید کر قربانی کرے تو اس کے لیے جائز ہے کہ اونٹ یا گائے کے ساتویں حصے میں شامل ہوجائے کیونکہ یہ سات حُجاج کی طرف سے کفایت کر جاتے ہیں جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
(( نَحَرْنَا مَعَ رسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ الْبَدَنَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ وَالْبَقَرَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ )) [3]
’’صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم نے سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ اور سات آدمیوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔‘‘
[1] مسلم (۸/ ۱۹۵، ابو داود ۱۹۰۸، ۱۹۳۶) بیہقی (۵/ ۱۱۵، ۲۳۹)
[2] (( کُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَمَنْحَرٌ )) کی تخریج نمبر (۱۴۲) میں گزرچکی ہے۔
[3] اس حدیث کو مالک (۲/ ۴۸۶) ’’الضحایا‘‘ مسلم (۹/ ۶۶۔ ۶۷) ’’الحج‘‘ ابو داود (۲۸۰۹) ’’الأضحی‘‘ ترمذی (۹۰۴، ۱۵۰۲) ’’الحج والأضاحی‘‘ اور ابن ماجہ (۳۱۳۲) ’’الأضحی‘‘ وغیرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔