کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 318
(( بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، الَلّٰھُمَّ اِنَّ ھَذَا مِنْکَ وَلَکَ، اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ )) [1] ’’اللہ کے نام سے۔ اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! یہ تیری ہی توفیق سے اور تیرے ہی لیے ہے۔ اے اللہ! اسے میری طرف سے قبول فرما۔‘‘ اور یاد رہے کہ ’’حجِ تمتُّع‘‘ کرنے والوں پر تو قربانی واجب ہے کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ} [البقرۃ: ۱۹۶] ’’تم میں سے جو شخص حج کا وقت آنے تک عمرے سے فائدہ اٹھائے وہ حسبِ مقدور قربانی کرے۔‘‘ اور ’’حجِ قِران‘‘ کرنے والوں پر بھی صحیح بخاری ومسلم میں مذکور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کی رُو سے قربانی کرنا واجب ہے جبکہ ’’حجِ مفرد‘‘ والوں پر قربانی واجب تو نہیں البتہ کر لیں توکارِ ثواب ہے۔[2] قربانی نہ ہونے کی صورت میں: سابقہ حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر کسی کے پاس قربانی نہ ہو اور قربانی کاجانور خریدنے کی طاقت نہ ہو تووہ تین روزے ایامِ حج میں اورسات روزے وطن واپس لوٹ کر رکھ لے۔ چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ھَدْیاً، فَلْیَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃً اِذَا
[1] بخاری (۱۷۱۷) مسلم (۹/ ۶۴، ۶۶) اِسی طرح اس کو ابو داود (۱۷۶۹) ابنِ ماجہ (۳۰۹۹) دارمی (۲/ ۷۴) سب نے ہی ’’کتاب الحج‘‘ میں، ابن الجارود (۴۸۲، ۴۸۳) بیہقی (۵/ ۲۴۱، ۹/ ۲۹۴) احمد (۱/ ۷۹، ۱۲۳، ۱۳۲، ۱۴۳، ۱۵۴) اور عبداللہ بن احمد نے ’’زوائد المسند‘‘ (۱/ ۱۱۲) میں روایت کیا ہے۔ [2] یہ حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما نمبر (۲۲۱) میں گزر چکی ہے۔