کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 314
(( وَرَمیٰ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ فِيْ سَائِرِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ )) [1] ’’یومِ نحر کے بعد والے ایامِ تشریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوالِ آفتاب کے بعد رمی کی۔‘‘ اب مسنون تویہی ہے لیکن اگر کوئی کمی بیشی ہوجائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ رمی کرتے وقت اس طرح کھڑے ہونا سنت ہے کہ مکہ مکرمہ بائیں طرف اور منیٰ دائیں طرف ہو جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرۂ کبریٰ پر پہنچے توبیت اللہ شریف کو اپنی بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کرلیا اورسات کنکریاں ماریں اورہر کنکری کے ساتھ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہا۔ پھر فرمایا: (( ھٰکَذَا رَمَی الَّذِيْ أُنْزِلَتْ عَلَیہِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ )) [2] ’’جن پر سورۂ بقرہ نازل ہوئی تھی (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) انھوں نے اسی طرح رمی کی تھی۔‘‘ مذکورہ بالا متعدد احادیث میں آدابِ رمی کے سلسلے میں بار بار گزر رہا ہے کہ ہر کنکری کو مارتے وقت اللہ اکبر کہیں ۔ یہ عمل بعض دیگر احادیث کی روسے بھی مسنون ہے ۔[3]
[1] اس کے لیے دیکھیں: نمبر (۳۰۳) [2] بخاری (۴۸ ۱۷، ۱۷۴۹، ۱۷۵۰) مسلم (۹/ ۴۲، ۴۴) اسی طرح ابو داود (۱۹۷۴) ترمذی (۹۰۱) نسائی (۵/ ۲۷۳، ۲۷۴) اور ابن ماجہ (۳۰۳۰) وغیرہ۔ [3] ان احادیث میں ابن عمر، جابر، فضل بن عباس اور ام جندب رضی اللہ عنہم کی حدیثیں ہیں: ۱۔ حدیثِ ابن عمر بخاری(۱۷۵۱) اور نسائی(۵؍۲۷۶۔۲۷۷) میں ہے۔ ۲۔ حدیثِ جابر کی تخریج کے لیے اس کتاب کی حدیث نمبر (۱۹۳) دیکھیں۔ ۳۔ حدیثِ فضل بن عباس کو نسائی (۵/ ۲۷۵) اور احمد (۱/ ۲۱۲) نے روایت کیا ہے۔ شیخ احمد شاکر نے تحقیق مسند (۳/ ۲۳۶/ ۱۸۱۵) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ۴۔ حدیث ام جندب کو ابو داود (۱۹۶۶۔ ۱۹۶۷) اور ابن ماجہ (۳۰۳۱) نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند شواہد میں حسن درجے کی ہے۔