کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 311
۱۰/ذوالحج یا یومِ نحر وقربانی کی مصروفیات ۱۰/ ذوالحج کو جب آپ مزدلفہ سے منیٰ پہنچ جائیں تویہاں آکر چار کام کرنے ہوتے ہیں جن میں مسنون ترتیب یہ ہے : 1۔جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا۔ 2۔حلق یاتقصیر ( پورا سر منڈوانا یاکچھ بال کٹوانا )۔ 3۔نحرو قربانی۔ 4۔ طوافِ افاضہ یا طوافِ زیارت یا طوافِ حج ۔ جمہور فقہاء ومحدِّثین کے نزدیک یہ ترتیب مسنون ہے واجب نہیں، لہٰذا اگر کسی سے کوئی تقدیم وتاخیر ہوجائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ (دم وغیرہ )نہیں ہے۔ یہ تقدیم وتاخیر لاعلمی سے ہو، بھول سے ہو یاجان بوجھ کر کی گئی ہو،اس میں کوئی فرق نہیں۔ (بلوغ الأماني: ۱۲/ ۲۰۹) تقدیم وتاخیر سے مراد یہ ہے کہ مثلاًکوئی شخص رمی سے پہلے بال کٹوالے یاقربانی سے پہلے طوافِ افاضہ کرلے یا رمی سے پہلے قربانی کرلے یا رمی سے پہلے طواف کرلے وغیرہ ۔ اس سلسلے میں صحیحین وسنن اورمسند احمد میں متعدد احادیث مروی ہیں کہ مختلف لوگوں نے جب ایسی صورتوں کے بارے میں سوالات کیے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر موقع پر فرمایا: (( لَاحَرَجَ )) [1] ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
[1] اس بارے میں عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس، علی، جابر، اور اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہم سے روایات ہیں: ۱۔ حدیثِ عبداللہ بن عمر و بخاری (۱۷۳۶) مسلم (۹/ ۵۴) ابو داود (۲۰۱۴) ترمذی (۹۱۶) اور دارمی (۲/ ۶۴، ۶۵) وغیرہ میں ہے۔ ۲۔ حدیثِ ابن عباس کو بخاری (۱۷۲۱) ابو داود (۱۹۸۳) نسائی (۵/ ۲۷۲) اور ابن ماجہ (۳۰۵۰) وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ۳۔ حدیثِ علی کو احمد (۱/ ۷۶، ۱۵۷) ترمذی (۸۸۵) اور ابو یعلی (۳۱۲، ۵۴۴) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ ۴۔ حدیثِ جابر مسند احمد (۳/ ۳۲۶، ۳۸۵) ابن ماجہ (۳۰۵۲) اور ابن حبان (۱۰۱۲) میں ہے۔ اس کو ابن حبان اور بوصیری نے صحیح کہا ہے۔ ۵۔ حدیثِ اسامہ بن شریک ابو داود (۲۰۱۵) ابن خزیمہ (۲۷۷۴) دارقطنی (۲/ ۲۵۱/ ۶۷) اور بیہقی (۵/ ۱۴۶) میں ہے اور اس کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔