کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 300
36۔(( اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ، أَعُوْذُ بِکَ مِنْ حَرِّ النَّارِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ )) [1]
’’اے حضرت جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل( علیہم السلام ) کے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، آگ کی تپش اور قبر کے عذاب سے۔‘‘ (نسائی )
37۔ (( اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ، فَإِنَّہٗ لَا یَمْلِکُھَا اِلَّا أَنْتَ )) [2]
’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل وکرم اورتیری رحمت کاطلب گار ہوں۔ اور ان سب کا مالک صرف تو ہی ہے۔‘‘ (طبرانی)
38۔ (( اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ )) [3]
’’اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں، دونوں جہانوں میںحسنات وبھلائیاں عطاکر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ (بخاری و مسلم )
39۔ (( اَللّٰھُمَّ حَجَّۃً، لَا رِیَائَ فِیْھَا وَلَا سُمْعَۃً )) [4]
[1] یہ دعا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے اور اس کو نسائی نے ’’السنن‘‘ اور ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ میں، اسی طرح احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور یہ دعا صحیح ہے۔
[2] دیکھیں: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني (۱۵۴۳) [مؤلف]
[3] یہ دعا بخاری اورمسلم وغیرہ میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
[4] اس دعا کو ابن ابی شیبۃ (۳/ ۴۴۲- دارالتاج) اور ابن ماجہ (۲۸۹۰) نے ’’المناسک، باب الحج علی الرحل‘‘ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں یزید بن ابان اور ربیع بن صبیح دونوں ضعیف ہیں جیسا کہ بوصیری نے ’’مصبا ح الزجاجۃ‘‘ (۱۰۱۹) میں کہا ہے۔
شیخ البانی نے اس دعا کو ’’صحیح الجامع‘‘ (۱۲۱۳) میں صحیح کہا ہے، غالباً انھوں نے اس کی تصحیح شواہد کی بنا پر کی ہوگی۔
بعد میں مجھے اس کے بعض شواہد مل گئے۔ ان شواہد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اوربشر بن قدامہ الضبائی کی حدیثیں ہیں:
۱۔ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فاکہی نے ’’اخبار مکۃ‘‘ (۱/ ۴۰۰) میں اور طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۱۴۰۰) میں روایت کیا ہے۔
اس کی سند میں اگر ابن جریج کا عنعنہ نہ ہو تو یہ حسن درجہ کی ہے۔ اس حدیث میں ’’اللھم‘‘ کے بعد ’’اجعلھا‘‘ اور ’’حجۃ‘‘ کے بعد ’’مبرورۃ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ اور ’’اخبارِ مکہ‘‘ میں ’’مبرورۃ‘‘ کے بعد ’’متقبلۃ‘‘ کا لفظ بھی ہے۔
۲۔ حدیثِ بشر بن قدامۃ کو ابن خزیمۃ (۲۸۳۶) بیہقی (۴/ ۳۳۲، ۳۳۳) اور ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۱۳۰، ۱۳۱) میں روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں دو راوی مجہول ہیں۔ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: (( اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا غَیْرَ رِیَائٍ وَلَا ھَبَائً وَلَا سُمْعَۃً )) بعد میں میں نے ’’مختصر الشمائل للألباني‘‘ دیکھی کیونکہ حدیثِ انس کو ترمذی نے بھی ’’الشمائل‘‘ میں روایت کیا ہے۔
’’مختصر الشمائل‘‘ میں شیخ البانی ترمذی اور ابن ماجہ کی سند کو ضعیف کہنے کے بعد کہتے ہیں: ’’لیکن ضیاء نے ’’المختارۃ‘‘ میں اس حدیث کو دوسرے طُرق سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور حدیث ِابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ایک شاہد بھی ہے۔ ان طُرق اور اس شاہد کی تخریج ’’الصحیحۃ‘‘ (۲۶۱۷) میں ہے ملاحظہ ہو: ’’مختصر الشمائل‘‘ حدیث (283)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث اپنے طُرق اور شواہد کی بنا پر صحیح حدیث ہے۔