کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 299
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اپنی قوتِ سماعت وشنوائی کی برائی سے اپنی قوتِ بینائی، اپنی زبان، اپنے دل اور مادۂ منویہ کی برائی سے۔‘‘ (ابو داود ، ترمذی ، نسائی ، حاکم) 34۔(( اَللّٰھُمّٰ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَھْوَائِ وَ الْأَدْوَائِ )) [1] ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، بداخلاقی، بدعملی، حرص وہویٰ اور بیماریوں سے۔‘‘ (ترمذی ، حاکم ،طبرانی ) 35۔ (( اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لَا یُسْمَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ، أَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھٰؤُلٓائِ الْاَرْبَعِ )) [2] ’’اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں، ایسے دل سے جس میں خشیت وڈر نہ ہو ، ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو ، ان چاروں سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، حاکم)
[1] اس دعا کو ترمذی (۳۵۹۱) ’’الدعوات، باب دعاء أم سلمہ‘‘ ابن حبان (۲۴۲۲) طبرانی نے ’’الدعا‘‘ (۱۳۸۴) میں، حاکم (۱/ ۵۳۲) اور بزار (۳۲۰۹، مختصراً) نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن جبکہ ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [2] ابو داود (۱۵۴۸) ترمذی (۳۴۸۲) نسائی (۸/ ۲۵۵، ۲۶۳، ۲۶۳، ۲۶۴، ۲۸۴، ۲۸۵) ابن ماجہ (۳۸۳۷) حاکم (۱/ ۱۰۴) یہ دعا ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور مستدرک میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ترمذی اور اسی طرح نسائی میں بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اور نسائی و مستدرک حاکم میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اسی طرح مسلم (۱۷/ ۴۱) میں یہ دعا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ ان کی حدیث میں اس سے پہلے دیگر کلمات کا بھی اضافہ ہے۔