کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 290
’’بے شک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! مجھے مصیبت سے بچانا اور میرے لیے اس سے بہتر چیز مقدّر کرنا۔‘‘
13۔(( اَللّٰھُمَّ اکْفِنِيْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ، وَاَغْنِنِيْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ )) [1] (ترمذی)
’’اے اللہ! مجھے حرام سے بچاکر حلال کے ساتھ کفایت عطاکر اوراپنے
[1] ترمذی (۳۵۶۳) اسے احمد نے فضائل الصحابۃ (۱۱۴۲، ۱۲۰۸) میں، طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۱۰۴۲) میں اور حاکم (۱/ ۵۳۸) نے بھی علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ یہ حسن درجہ کی حدیث ہے۔ ترمذی نے بھی اسے حسن کہا ہے، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس کی سند میں عبدالرحمان بن اسحاق ہے اور یہ دو ہیں: ایک واسطی اور دوسرا قرشی۔ واسطی ضعیف ہے مگر قرشی صدوق ہے جیساکہ ’’تقریب‘‘ میں ہے اور اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحق قرشی ہے جیساکہ حاکم اور اسی طرح احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے۔ اس نے اس حدیث کو سیار ابو الحکم سے روایت کیا ہے۔
’’الدعاء‘‘ طبرانی کے محقق ڈاکٹر محمد سعید نے اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ عبدالرحمن بن اسحق واسطی ہے قرشی نہیں کیونکہ قرشی سیار ابو الحکم سے روایت نہیںکرتا۔ اسی طرح حاکم کی تصحیح اور ذہبی کی موافقت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ شاید ان کو اشتباہ ہوگیا ہے کہ انھوں نے واسطی کو قرشی سمجھ لیا ہے۔
قلت: قرشی کی صراحت اگر صرف حاکم ہی کے ہاں ہوتی تو ہم کسی حدتک ڈاکٹر صاحب کی بات کو تسلیم کرلیتے اور کہہ دیتے کہ ممکن ہے حاکم کے ہاں عبدالرحمن کے قرشی ہونے کی صراحت ان کے اوہام میں سے ہو مگر یہ صراحت تو احمد کی ایک روایت میں بھی ہے جیسا کہ ابھی ذکر ہوا۔ رہا ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ کہ قرشی، سیار ابو الحکم سے روایت نہیں کرتا تو یہ دعویٰ مردود ہے کیونکہ قرشی کی بھی سیار ابو الحکم سے روایت ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم نے ’’الجرح والتعدیل‘‘ (۵/ ۲۱۲) میں ذکر کیا ہے۔ غالباً ڈاکٹر صاحب نے یہ دعویٰ صرف ’’تہذیب التہذیب‘‘ ہی دیکھ کر کر ڈالا ہے۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر صاحب پر یہ ردّ ’’پیارے رسول کی پیاری دعائیں‘‘ کی مفصل تخریج میں بھی کیا ہے۔