کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 289
10۔ (( الَلّٰہُ، الَلّٰہُ رَبِّيْ، لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً )) [1] (ابو داود) ’’اللہ ہی اللہ میرا پروردگار ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔‘‘ 11۔(( اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ، نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ، قَاضٍ فِيَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَائُکَ، أَسْئَلُکَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ أَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ أَوْ عَلَّمْتَہٗ أَحَداً مِّنْ خَلْقِکَ أَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِيْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِيْ َونُوْرَ صَدْرِيْ وَجَلَائَ حُزْنِيْ وَذَھَابَ ھَمِّيْ )) [2] ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں۔ تیرے ایک بندے اورایک بندی کابیٹا ہوں۔ میں تیرے قابو میں ہوں۔ مجھ پر تیراحکم چلتا ہے۔ مجھ پر تیرا ہر فیصلہ مبنی برعدل ہے۔ میں تیرے اسماء حسنیٰ ،جو تونے اپنے لیے اختیار کیے، اپنی کتاب میں نازل فرمائے، اپنی مخلوق میں کسی کوسکھلائے یا جنہیں تونے اپنے علمِ غیب میں ترجیح دے رکھی ہے، اُن تمام اسماء کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ قرآنِ کریم کو میرے دل کا سر ور اور سینے کا نور بنا دے اور اسے میرے غم کافور کرنے اور پریشانیاں دور کرنے کا ذریعہ بنادے۔‘‘ (ابن حبان و احمد ) 12۔{اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ} اَللّٰھُمَّ أْجُرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَاخْلُفْ لِيْ خَیْراً مِّنْھَا )) [3] (صحیح مسلم)
[1] ابو داود (۱۵۲۵) ’’باب في الاستغفار‘‘ عن اسماء بنت عمیس۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ (تحقیق صحیح ابن حبان: ۳/ ۱۴۶) [2] یہ حدیث صحیح ابن حبان اور مسند احمد کے علاوہ مسند ابو یعلی وغیرہ میں بھی مروی ہے۔ شیخ البانی نے ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ میں اس کو صحیح کہا ہے۔ [3] مسلم (۶/ ۲۲۰) کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ۔