کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 274
………………………………………[1]
[1] ۲۔ حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ۔ اسے عقیلی (۳/ ۴۶۳) اور طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۸۷۵) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند فرج بن فضالہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
۳۔ حدیثِ علی رضی اللہ عنہ ۔ اسے ابن ابی شیبۃ (۶/ ۸۴- دارالتاج) بیہقی (۵/ ۱۱۷) اور ابن عبدالبر نے ’’التمہید‘‘ (۶/ ۴۰) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف اورمنقطع ہے۔ اس ضعف اور انقطاع کی صراحت بیہقی نے کی ہے۔ طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۸۷۴) میں اس کو علی رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے مگر یہ سند بھی قیس بن ربیع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حافظ ابن عبدالبر کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث کی تیسری سند بھی ہے کیونکہ وہ ’’تمہید‘‘ میں حدیثِ علی اور حدیثِ عبداللہ بن عمرو کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ جو حدیثِ علی ہے اس کا دارومدار دونوں سندوں میں دینار ابو عمرو پر ہے اور یہ قابلِ حجت نہیں۔ (۶/ ۳۹)، اس کی مذکورہ دونوں سندوں میں دینار ابو عمرو نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اس حدیث کی تیسری سند ہے اور یہ دینار، دینار بن عمر الاسدی ہے۔ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں اس کو ’’صالح الحدیث‘‘ کہا ہے، لہٰذا یہ سند حسن درجہ کی ہے بشرطیکہ ا س میں کوئی اور علّت نہ ہو۔
۴۔ طلحہ بن عبیداللہ بن کریز اور ابن ابی حسین کی مرسل روایتیں:
۱۔ طلحہ بن عبیداللہ کی مرسل روایت کو مالک نے ’’موطأ، کتاب القرآن (۱/ ۲۱۴) باب ماجاء في الدعاء‘‘ اور ’’کتاب الحج‘‘ (۱/ ۴۲۲، ۴۲۳) ’’باب جامع الحج‘‘ میں روایت کیا ہے اور مالک کے طریق سے اس کو عبدالرزاق (۸۱۲۵) فاکہی (اخبارِ مکہ: ۵/ ۲۵) بیہقی (۴/ ۲۸۴، ۱۱۸۵) اور بغوی (۱۹۲۹) نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
تنبیہ: ایک ضعیف راوی عبدالرحمن بن یحییٰ نے امام مالک سے اس دعا کو ایک دوسری سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصول روایت کیا ہے۔ اس سند سے اسے ابن عدی (۴/ ۱۶۰۰) اور بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (۸/ ۱۴، ۱۵) میں تخریج کیا ہے مگر یہ موصول روایت صحیح نہیں۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ مالک سے منکر ہے۔ ’’یہ موطأ‘‘ میں مرسلاً مروی ہے اور بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن یحییٰ سے غلطی ہوئی ہے، مالک نے تو اسے ’’موطا‘‘ میں مرسل روایت کیا ہے۔ اور ’’سنن‘‘ میں مرسل روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: ’’دوسری سند سے یہ مالک سے موصولاً بھی مروی ہے مگر اس کا موصول ہونا ضعیف ہے۔‘‘
۲۔ ابن ابی حسین کی مرسل کو ابن ابی شیبۃ (۶/ ۸۴) اور ابن عبدالبر (۶/ ۴۰) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔
مذکورہ دعا اپنے ان شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ اسی طرح ’’مصنف ابن ابی شیبۃ‘‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس دعا کا عرفہ کے دن پڑھنا مروی ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی ابو شعبۃ ہے، اگر یہ ثقہ ہے تو اس اثر کی سند صحیح ہے۔