کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 241
نمازیں پڑھتے ہیں۔ پھر جب وہ حج کوجاتے ہیں تو اپنے خالق ومالک، ربِ کعبہ کی عظمت وجلال کے پیشِ نظر شریعت کے قاعدے کے مطابق فرطِ محبت سے اس گھر کے گرد چکر لگانے لگتے ہیں اور محبتِ الٰہی وحبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نشے میں چُور ہوکر حجرِ اسود کو چومنے لگتے ہیں۔ اب بتائیے! کیا یہ حجر اسود کی عبادت اور پوجا ہے؟ نہیں بلکہ یہ تو ربِ کعبہ کے حکم سے عین ربِ لایزال ہی کی عبادت ہے۔ 3-امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے وہ جہاںسنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں؛ وہیں اس تمام پروپیگنڈے، جہلاء ومشرکین کے شکوک وشبہات اور ملحدین کے اوہام کی ظلمتوں میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں بشرطیکہ کوئی گوشِ ہوش تو ہو!! صحیح بخاری ومسلم میں مروی ہے کہ حجرِ اسود کوبوسہ دینے سے پہلے انہوں نے اس پر نظریں جماکر فرمایا : (( اِنِّيْ لَأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ، وَلَوْ لَا اَنِّيْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ )) [1]
[1] بخاری (۱۵۹۷، ۱۶۰۵، ۱۶۱۰) مسلم (۹/ ۱۵۔ ۱۷) اسی طرح ابو داود (۱۸۷۳) ترمذی (۸۶۰) نسائی (۵/ ۲۲۷) ابن ماجہ (۲۹۴۳) دارمی (۲/ ۵۲، ۵۳) ابن الجارود (۴۵۲) ابن خزیمۃ (۲۷۱۱) بیہقی (۵/ ۷۴، ۸۲، ۸۳) طیالسی (۱/ ۲۱۵، ۲۱۶) احمد (۱/ ۱۶، ۱۷، ۲۱، ۲۶، ۳۴، ۳۵، ۴۶، ۵۱، ۵۳، ۵۴) اور ابو یعلی (۲۱۷، ۲۲۱) نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ یہ حدیث عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بہت سی سندوں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے: (( اِنِّيْ أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ )) یہ کلمات ایک مرفوع حدیث میں بھی مذکور ہیں۔ حافظ ابوبکر المروزی نے ’’مسند أبي بکر الصدیق‘‘ (۱۱۹) میں ایک نامعلوم صحابی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرِ اسود پر کھڑےدیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات (( إِنِّيْ أَعْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ )) کہے اور اس کے بعد اس کا بوسہ لیا اور جب ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو انھوں نے بھی یہی کلمات کہے، اس کے بعد اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعہ کا ذکر ہے مگر اس حدیث کی سندضعیف ہے۔