کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 238
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول سلف صالحین بھی اپنے ساتھ آبِ زم زم لے جایا کرتے تھے۔ (بحوالہ مناسک الحج والعمرۃ، ص: ۴۳)[1]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے آبِ زم زم کے فضائل وبرکات کے علاوہ ا س کے مادی وطبی فوائد کاتذکرہ بھی بڑے عمدہ اورجامع انداز سے کیا ہے ۔
(دیکھیے: زاد المعاد: ۴/ ۳۹۲، ۳۹۳، بتحقیق الارناؤوط)
سیر ت وسننِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع اس بے نظیر کتاب ’’زاد المعاد‘‘ کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے جسے نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے اور پھر اس کے باب ’’طبِ نبوی‘‘ کاالگ سے ترجمہ الدار السلفیہ بمبئی نے بھی بڑی عمدگی سے شائع کردیا ہے۔ الغرض آبِ زم زم خوب پیٹ بھر کر پینا چاہیے اورواپسی پر اپنے ساتھ بھی لانا چاہیے۔ یہ سنت وثواب اور ثابت ہے۔ آبِ زم زم پینے کے لیے بعض لوگ کھڑے
[1] روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔
۳۔ حدیثِ ام معبد کو فاکہی (۲/ ۵۰) نے روایت کیا ہے اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
۴۔ ابن ابی حسین کی مرسل روایت کو عبدالرزاق (۹۱۲۷) ازرقی (۲/ ۵۱) اور فاکہی (۲/ ۳۳) نے ابن جریج کے واسطے سے ان سے روایت کیا ہے اور یہ صحیح سند ہے۔ ازرقی (۲/ ۵۰) اور فاکہی (۲/ ۴۸) نے اس کو ابراہیم بن نافع کے واسطے سے بھی ابن ابی حسین سے روایت کیا ہے اور یہ سند بھی صحیح ہے۔ پہلی موصول روایات کے ساتھ اس مرسل کو ملا لینے سے مذکورہ حدیث، صحیح حدیث ہے۔
تنبیہ: فاکہی کے ہاں ابراہیم بن نافع کی بجائے ’’ابو نعیم بن نافع‘‘ ہے اور یہ کسی ناسخ کی غلطی سے ابراہیم کی بجائے ابو نعیم ہوا ہے۔ ’’اخبار مکۃ‘‘ فاکہی کے محقق لکھتے ہیں کہ مجھے ابو نعیم بن نافع کا ترجمہ نہیں ملا حالانکہ یہ ابونعیم بن نافع نہیں بلکہ ابراہیم بن نافع ہیں جیساکہ ازرقی کی ’’اخبار مکۃ‘‘ میں ہے۔ ان کا ترجمہ ’’تہذیب الکمال‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ وغیرہ میں موجود ہے۔ یہ محقق اگر ازرقی کی ’’اخبار مکۃ‘‘ دیکھ لیتے تو عین ممکن تھا کہ وہ اس غلطی پر متنبہ ہوجاتے۔