کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 237
’’یہ مبارک پانی ہے۔ یہ بھوکے کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفا بخش دوا ہے۔ روئے زمین کا سب سے بہتر و افضل پانی، آب زمزم ہے۔‘‘ آب زم زم کی برکات کا اندازہ اسی بات سے کیاجاسکتا ہے کہ تاریخ امام بخاری اور ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آبِ زمزم کے مشکیزے بھر بھر کر ساتھ لے جاتے تھے اور مریضوں کو پلاتے اور ان پر چِھڑکا کرتے تھے۔[1] جبکہ سنن بیہقی ومصنف عبدالرزاق میں ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن عَمرو کو پیغام بھیجا کرتے تھے کہ ہمیں آب ِزمزم کا ہدیہ بھیجتے رہو اوریہ سلسلہ ترک مت کرو۔ وہ دو دو مشکیزے بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ [2]
[1] اس حدیث کو امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ (۳/ ۱۸۹) میں، ترمذی (۹۶۳)، فاکہی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۲/ ۴۹) میں، ابو یعلی (۴۹۸۳) حاکم (۱/ ۴۸۵) بیہقی نے ’’سنن‘‘ (۵/ ۲۰۲) اور ’’شعب الایمان‘‘ (۸/ ۶۹) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند خلاد بن یزید کی وجہ سے حسن درجہ کی ہے۔ امام ترمذی نے بھی ا س حدیث کو حسن کہا ہے۔ [2] یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کو جابر، ابن عباس، ام معبد رضی اللہ عنہم اور اسی طرح ابن ابی حسین نے بھی روایت کیا ہے مگر ابن ابی حسین کی روایت مرسل ہے کیونکہ یہ تابعی ہیں۔ ۱۔ حدیثِ جابر کو فاکہی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۲/ ۴۹) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند عبداللہ بن المؤمل کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر بیہقی (۵/ ۲۰۲) میں ابراہیم بن طہمان نے اس کی متابعت کی ہے اور شیخ البانی نے ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ (۸۸۳) میں اس سند کو جید کہا ہے۔ ۲۔ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۲۰۱) میں اور بیہقی نے (