کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 235
(( ثُمَّ ذَھَبَ اِلٰی زَمْزَمَ فَشَرِبَ مِنْھَا، وَصَبَّ عَلٰی رَأْسِہٖ )) [1] ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زم زم کی طرف چلے گئے، اسے پیا اور اپنے سرِ اقدس پربھی ڈالا۔‘‘ آبِ زم زم وہ پانی ہے جس کے متعلق سنن ابن ماجہ وبیہقی اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ )) [2] ’’آب ِ زمزم ہر مرض و غرض کے لیے مفید ہے۔‘‘ جبکہ صحیح مسلم اور مسند احمد و طیالسی میں ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اِنَّھَا مُبَارَکَۃٌ، وَھِيَ طَعَامُ طُعْمٍ وَّشِفَائُ سُقْمٍ، خَیْرُ مَائٍ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ مَائُ زَمْزَمَ )) [3]
[1] احمد (۳/ ۳۹۴) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ فاکہی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۱/ ۲۴۱) میں اس کو جابر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے اور اس میں چہرہ پر بھی پانی ڈالنے کا ذکر ہے مگر وہ سند ضعیف ہے۔ [2] یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اسے احمد (۳/ ۲۵۷، ۳۷۲) ابن ابی شیبۃ (۳/ ۲۷۴) ازرقی (۱/ ۵۲) فاکہی (۲/ ۲۷) عقیلی (۲/ ۳۰۳) طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۸۵۳) میں، ابن عدی (۴/ ۱۴۵۵) بیہقی نے ’’سنن‘‘ (۵/ ۱۴۸) اور ’’شعب الایمان‘‘ (۸/ ۶۷) میں، خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۳/ ۱۷۹، ۱۰/ ۱۶۶) میں اور ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق‘‘ (۳۸/ ۳۴۱، ۳۴۳) میں روایت کیا ہے۔ بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (۸/ ۶۶) میں اس کو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے حسن کہا ہے جیسا کہ سیوطی نے نقل کیا ہے، جبکہ سفیان بن عیینہ، منذری، دمیاطی اور البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’الحاوی للفتاوی‘‘ للسیوطي (۱/ ۳۵۳) ’’تلخیص الحبیر‘‘ (۲/ ۲۶۹) اور ’’ارواء الغلیل‘‘ (۱۱۲۳)۔ [3] یہ دو حدیثیں ہیں۔ پہلی حدیث (( اِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ وَھِيَ طَعَامُ طُعْمٍ وَّشِفَائُ سُقْمٍ )) ہے اور اس کو ابوذر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔(