کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 227
ایسے ہی کیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز میں سورۂ {وَالطُّوْرِ . وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرِ} کی تلاوت فرمارہے تھے ۔‘‘
وقتِ طواف میں وُسعت:
بیت اللہ شریف کے طواف کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں بلکہ دن یا رات کے جس وقت بھی کوئی حرم شریف تک پہنچ جائے اسی وقت طواف کرسکتا ہے۔ جمہور اہلِ علم کا یہی قول ہے۔ البتہ طواف کی دو رکعتوں کے بارے میں معمولی اختلاف ہے۔ بعض کاکہنا ہے کہ نماز کے مکروہ اوقات میں وہ دو رکعتیں نہ پڑھی جائیں بلکہ کچھ تاخیر کر کے اداکرلی جائیں جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ جس طرح طواف کے لیے کوئی وقت مکروہ نہیں ہے ایسے ہی وہ دو رکعتیں بھی ہروقت پڑھی جاسکتیں ہیں۔ جمہور اہلِ علم کایہی مسلک ہے اورامام ابن المنذر نے ابن عمر ، ابن عباس ، حسن، حسین، ابن زبیر رضی اللہ عنہم اور طاؤس، عطا، قاسم بن محمد، عروہ، مجاہد، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور رحمہ اللہ کا یہی مسلک بیان کیا ہے ۔ (الفتح الرباني: ۱۲/ ۵۶، ۵۷)
ان کا استدلال سنن اربعہ ، صحیح ابن حبان ، مسند احمد وبزار اور مستدرک حاکم میں مذکور اس حدیث سے ہے جس کے راوی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
(( یَا بَنِيْ عَبْدِ مُنَافٍ! لَا تَمْنَعَنَّ أَحَداً طَافَ بِھٰذَا الْبَیْتِ أَوْ صَلّٰـی أَيَّ سَاعَۃٍ مِنْ لَیْلٍ أَوْنَھَارٍ )) [1]
[1] اس حدیث کو ابو داود (۱۸۹۴) ترمذی (۸۶۸) نسائی (۲/ ۲۸۴، ۵/ ۲۲۳) ’’المواقیت والحج‘‘ ابن ماجہ (۱۲۵۴) ’’إقامۃ الصلاۃ‘‘ دارمی (۲/ ۷۰) ابن خزیمہ (۲۷۴۷) دارقطنی (۲/ ۲۶۶) حاکم (۱/ ۴۴۸) بیہقی (۲/ ۴۶۱، ۵/ ۱۱۰) احمد (۴/ ۸۰، ۸۱، ۸۲، ۸۳، ۸۴) ابو یعلی (۷۳۹۶، ۷۴۱۵) اور حمیدی (۵۶۱) نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے، اس کو ترمذی ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے۔ بزار (۱۱۱۱) نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ ہیں مگر بزار نے کہا ہے کہ اس سند سے یہ روایت جبیر بن مطعم سے معروف ہے جابر سے نہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور اس کو طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۵۰۱) اور ’’المعجم الصغیر‘‘ (۱/ ۲۷) میں روایت کیا ہے مگر اس کی سند سلیم بن مسلم الخشاب کی وجہ سے ضعیف ہے۔