کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 219
’’تو پھر تم اسے چھونے کا خیال چھوڑو، کیونکہ تمھارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
دورانِ طواف کی دعائیں اور لایعنی گفتگو سے اجتناب:
طواف، حج کا ایک اہم رکن ہے اور قربِ کعبہ کی بنا پر قبولیتِ دعا کا وقت و موقع بھی۔ لہٰذا حجاجِ کرام کو چاہیے کہ دورانِ طواف اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کریں اور دعائیں مانگیں اور لایعنی گفتگو سے کلّی اجتناب کریں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیساکہ سنن ترمذی، صحیح ابن خزیمہ وابن حبان، مسند دارمی، مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں مرفوعاً اور سنن نسائی و مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی ہے:
(( اَلطَّوَافُ بِالْبَیْتِ صَلوٰۃٌ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ أَحَلَّ فِیْہِ النُّطْقَ، فَمَنْ نَطَقَ فَلَا یَنْطِقْ اِلَّا بِخَیْرٍ (وفي الموقوف) فَاِذَا طُفْتُمْ فَاَقِلُّوْا الْکَلَامَ )) [1]
[1] اس حدیث کو ترمذی (۹۶۰) دارمی (۲/ ۴۴) ابن الجارود (۴۶۱) ابن خزیمۃ (۳۷۳۹) ابن حبان (۹۹۸) طبرانی (۱۱/ ۳۴) حاکم (۱/ ۴۵۹، ۲/ ۲۶۷) بیہقی (۵/ ۸۵) ابو یعلی (۲۵۹۹) اور فاکہی (۱/ ۱۹۱) نے روایت کیا ہے۔ یہ صحیح حدیث ہے، اسے ابن خزیمۃ، ابن حبان، حاکم، ذہبی، ابن حجر اور البانی نے صحیح کہا ہے۔تفصیل کے لیے ’’التلخیص الحبیر‘‘ (۱/ ۱۲۹، ۱۳۰) اور ’’ارواء الغلیل‘‘ (۱۲۱) ملاحظہ کریں۔ (( اِذَا طُفْتُمْ فَاَقِلُّوا الْکَلَامَ )) ان الفاظ سے اس حدیث کو عبد الرزاق (۹۷۸۸) احمد (۳/ ۴۱۴، ۴/ ۶۴، ۵/ ۳۷۷) اور نسائی (۵/ ۲۲۲) نے ایک نامعلوم صحابی سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ ان سے ملتے جلتے الفاظ سے یہ حدیث ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے موقوفاً بھی مروی ہے۔
ابن عباس کے اثر کو عبدالرزاق (۹۷۸۹، ۹۷۹۰) ابن ابی شیبہ (۳/ ۱۳۷۔ دارالتاج) ازرقی (۲/ ۱۱) اور فاکہی نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۱/ ۱۹۲، ۱۹۳) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ طبرانی نے ان سے اسی سیاق سے مرفوعاً بھی روایت کی ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۴۰) ابن عمر کے اثر کو شافعی نے ’’مسند‘‘ (۱۲۷) میں، نسائی (۵/ ۲۲۲) اور فاکہی (۱/ ۱۹۳) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے۔