کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 218
رکنِ یمانی اور حجرِ اسود دونوں کو ’’رکنین یمانیین‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرے دونوں رکنوں کو ’’رکنین شامیین‘‘ کہا جاتا ہے۔ سنن ابو داود و نسائی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں وہ فرماتے ہیں :
(( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَسْتَلِمُ الرُّکْنَ الْیَمَانِيَّ وَالْاسْوَدَ کُلَّ طَوْفَۃٍ وَلَا یَسْتَلِمُ الرُّکْنَیْنِ الْآخَرَیْنِ الَّذَیْنِ یَلِیَانِ الْحَجَرَ )) [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے ساتوں چکروں میں سے ہر چکر میں رکنِ یمانی اور حجرِاسود کو چھوا کرتے تھے اورحجرِ اسود کی دوسری طرف والے دونوں رکنوں (رکنِ عراقی وشامی) کو نہیں چھوتے تھے۔‘‘
ایسے ہی مصنف عبدالرزاق ، مسند احمد اور سنن بیہقی میں حضرت یعلی بن امیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (اور ایک روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ طواف کیا۔ جب میں اس رکن کے پاس تھا جو بابِ کعبہ کے آگے والے کونے میں نصب ہے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا کہ اس کا استلام کریں، تو انھوں نے فرمایا:
(( اَمَا طُفْتَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ ))
’’کیا تم نے کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف نہیں کیا؟‘‘
میں نے عرض کیا، نہیں، تو انھوں نے فرمایا:
(( فَانْفِذْ عَنْکَ، فَاِنَّ لَکَ فِيَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ( صلي اللّٰه عليه وسلم ) أُسْوَۃً حَسَنَۃً )) [2]
[1] اس طرح سے اس حدیث کو احمد (۲/ ۱۱۵) ازرقی نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۱/ ۳۳۲) میں اور بیہقی (۵/ ۷۶، ۸۰) نے روایت کیا ہے۔ ابو داود اور نسائی وغیرہ میں (( وَلَا یَسْتَلِمُ الرُّکْنَیْنِ )) کے الفاظ نہیں ہیں۔ دیکھیں: اس کتاب کی حدیث نمبر (156)۔
[2] اس حدیث کو عبدالرزاق (۸۹۴۵) احمد (۱/ ۴۵، ۴/ ۲۲۲) بیہقی (۵/ ۷۷) اور ازرقی (۱/ ۳۳۵، ۳۳۶) نے عبداللہ بن باباہ سے اور انھوں نے یعلی بن اُمیہ کے کسی ایک بیٹے کے واسطے سے یعلی بن اُمیہ سے روایت کیا ہے۔ اس سند میں یعلی بن اُمیہ اور عبداللہ بن باباہ کے درمیان جو واسطہ ہے وہ مجہول ہے۔ مسند احمد (۱/ ۳۷) کی ایک روایت میں اور اسی طرح مسند ابو یعلی (۱۸۲) میں عبداللہ بن باباہ نے اس حدیث کو یعلی بن اُمیہ سے بلا واسطہ بھی روایت کیا ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یعلی بن اُمیہ سے بالواسطہ سنا ہو اور بعد میں بلا واسطہ سن لیا ہو کیونکہ عبداللہ بن باباہ کی یعلی بن اُمیہ سے روایت بلاواسطہ بھی ثابت ہے۔ واللّٰه أعلم۔