کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 214
…………………………………………[1]
[1] اس کو مالک نے بھی بلاغاً ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: (۱/ ۲۲۴) یہ روایت اگرچہ موقوف ہے مگر اس کاحکم مرفوع حدیث والا ہے کیونکہ اس میں عقل واجتہاد کو دخل نہیں ہے۔ جیسا کہ امام ابن الہمام نے ’’فتح القدیر‘‘ (۲/ ۵۰۸) میں کہا ہے۔ ابن عدی (۴/ ۱۶۴۱) نے اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے: (( مَنْ دَعَا مِنْ ذِیْ حَاجَۃٍ اَوْ کُرْبَۃٍ اَوْ ذِیْ غُمَّۃٍ فُرِجَ عَنْہُ بِاِذْنِ اللّٰہِ )) ’’جو ضرورت مند، مصیبت زدہ یا غمگین (اس مقام پر) دعا کرتا ہے تو اللہ کے حکم سے (اس کی ضرورت پوری، مصیبت اور غم) دور ہو جاتا ہے۔‘‘ مگر اسç çکی ایک سند سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ’’عباد بن کثیر الثقفی‘‘ ہے اور یہ متروک ہے، بلکہ امام احمد نے کہا ہے کہ اس نے جھوٹی حدیثیں بیان کی ہیں۔ دیگر یہ ابن عباس سے اسی اضافے کے ساتھ اس سے اچھی سند سے موقوفاً مروی ہے مگر اس سند میں یہ اضافہ ان الفاظ سے ہے: (( لَا یَلْتَزِمُ مَا بَیْنَھُمَا اََحَدٌ یَسْأَلُ اللّٰہَ شَیْئاً اِلَّا اَعْطَاہُ اِیَّاہُ )) ’’جو شخص بھی اس مقام پر چمٹ کر اللہ سے کوئی سوال کرتا ہے تو وہ اس کا سوال پورا کر دیتا ہے۔‘‘ اس کو بیہقی نے ’’سنن‘‘ (۵/ ۱۶۴) اور ’’شعب الایمان‘‘ ( ۷/ ۶۰۵) میں روایت کیا ہے۔ اس سند میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ہے اور یہ ضعیف ہے اور اس کے باقی سب راوی ثقہ ہیں۔ حاصل کلام مذکور ہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔