کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 213
’’اس کے باوجود ہم وہ کام ہر گز نہیں چھوڑیں گے جسے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں کیاکرتے تھے۔‘‘ جبکہ اس کی دائمی مشروعیت کا ذکر صحیح بخاری میں بھی ہے: (( شَییٌٔ صَنَعَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَّتْرُکَہٗ )) [1] ’’ایک کام جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہم اسے ترک کرنا ہرگز پسند نہیں کرتے۔‘‘ اس رمل کی مشروعیت اگرچہ ایک خاص وجہ سے ہوئی مگر پھر یہ ایک مطلق سنت قرارپائی جیساکہ صحیح مسلم اور دیگر کتب میں مذکور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے واقعہ میں بھی مذکور ہے : (( فَرَمَلَ ثلَاَثاً وَمشَیٰ أرْبعَاً )) [2] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کے پہلے تین چکر وں میں رمل اوربقیہ چار میں عام چال سے چلے۔‘‘ امام خطابی رحمہ اللہ نے صحیح فرمایا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایک کام کو کسی خاص وجہ سے کرتے ہیں اورپھر وہ وجہ تو زائل ہوجاتی ہے مگر وہ سنت اپنی اصل حالت پر قائم رہتی ہے ۔ (معالم السنن خطابی علی ھامش عون المعبود شرح ابو داود از علّامہ شمس الحق عظیم آبادی: ۵/ ۳۴۱) ملتزم سے چمٹنا اور دعائیں کرنا: حجرِ اسود اوربابِ کعبہ کے درمیان والی جگہ جس کانام ’’ملتزم‘‘ہے، اس کے ساتھ چمٹنا اور اس پر اپنا سینہ ، ہاتھ ،بازو ، اورچہرہ رکھنا بھی مسنون ہے جیسا کہ سنن ابو داود وابن ماجہ میں مذکور بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے۔[3]
[1] بخاری (۱۶۰۵) [2] اس حدیث کی مفصل تخریج نمبر (۱۹۳) میں آئے گی۔ [3] یہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کو ابو داود (۱۸۹۹) ابن ماجہ (۲۹۶۲) عبدالرزاق (۹۰۴۳) ازرقی (۱/ ۳۴۷، ۳۴۹، ۳۵۰) فاکہی (۱/ ۱۶۲) ابن عدی (۶/ ۲۴۱۸، ۲/ ۲۸۹) اور بیہقی نے ’’سنن‘‘ (۵/ ۹۳، ۱۶۴) اور ’’شعب الایمان‘‘ (۷/ ۶۰۴، ۶۰۵) میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند ’’مثنیٰ بن الصباح‘‘ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ عبدالرزاق، ازرقی اور بیہقی کی ایک روایت میں ابن جریج نے بھی اس کو مثنی کے شیخ ’’عمرو بن شعیب‘‘ سے روایت کیا ہے، یعنی ابن جریج نے مثنی کی متابعت کی ہے مگر یہ مدلس ہیں بلکہ امام بخاری نے کہا ہے کہ ابن جریج کا عمرو بن شعیب سے سماع نہیں ہے۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ ابن جریج نے اس حدیث کو مثنی سے سنا اور پھر تدلیس کی ہو مگر اس حدیث کے شواہد ہیں جن کی بنا پر یہ صحیح حدیث ہے۔ ان شواہد میں عبدالرحمن بن صفوان رضی اللہ عنہ کی موصول حدیث، ابن ابی ملیکۃ کی مرسل اور ابن عباس کی موقوف روایت ہے۔ حدیثِ عبدالرحمن بن صفوان کو احمد (۳/ ۴۳۰، ۴۳۱) ابو داود (۱۸۹۸) اور بیہقی (۵/ ۹۲) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند شاہد میں حسن درجہ کی ہے مگر عبدالرحمن بن صفوان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابن ابی ملیکۃ کی مرسل روایت کو فاکہی (۱/ ۱۶۲) نے روایت کیا ہے۔ یہ مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سند میں عبداللہ بن مؤمل ہے اور یہ ضعیف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی موقوف روایت کو عبد الرزاق (۹۰۴۷) نے بسند صحیح مجاہدسے روایت کیا ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا: (( ھَذَا الْمُلْتَزَمُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْبَابِ )) ’’حجرِ اسود اور دروازے کے مابین ملتزم ہے۔‘‘ (