کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 212
نے انھیں کمزور کردیا ہے یہ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں۔‘‘ سنن ابو داود میں یہ صراحت ہے: (( ھٰؤُلآئِ أَجْلَدُ مِنَّا )) ’’یہ تو ہم سے بھی زیادہ قوی ہیں۔‘‘ نیز ابو داود میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: (( تَقُوْْلُ قُرَیْشٌ: کَأَنّھُمُ الْغِزْلَانُ )) ’’قریش مکہ کہنے لگے کہ یہ لوگ تو ہرنوں کی طرح ہیں ۔‘‘ یہ تھا رمل کی مشروعیت کا سبب۔[1] سنن ابو داود وابن ماجہ اورمسند احمد میں ہے کہ رمل اس وقت سے طواف کی سنت قرارپائی جس پر صحابہ کرام (اور آج تک کے مسلمان) عمل پیرا ہیں حتیٰ کہ مذکورہ کتب میں حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا بول بالا کر دیا ہے اور کفرو کفار کو ذلیل وخوار کرکے ملک بدر کردیا ہے : (( مَعَ ھٰذَا ذٰ لِکَ لَا نَدَعُ شَیْئاً کُنَّا نَفْعَلُہٗ عَلـٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم )) [2]
[1] اس حدیث کو بخاری (۱۶۰۲) مسلم (۹/ ۱۲- ۱۳) ابو داود (۱۸۸۶) نسائی (۲۳۱، ۵/ ۲۳۰) ابن خزیمۃ (۲۷۲۰) بیہقی (۵/ ۸۲) اور احمد (۱/ ۲۹۰، ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۷۳) نے روایت کیا ہے۔ (( ھٰؤلٓائِ الَّذِیْنَ تَزْعُمُوْنَ ۔۔۔ اَقْوٰیْ مِنْ کَذَا وَکَذَا )) یہ احمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں۔ (( ہٰؤُلٓائِ اَجْلَدُمِنَّا )) ابو داود میں ہیں اور مسلم میں: ((ہٰؤُلَائِ اَجْلَدُ مِنْ کَذَا وَکَذَا )) کے الفاظ ہیں۔ بخاری میں مشرکین کا یہ قول نہیں ہے: (( تَقُوْلُ قُرَیْشُ کَأَنَّھُمُ الْغِزْلَانُ )) یہ الفاظ ابو داود (۱۸۸۹) میں ہیں اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ [2] اس کو ابو داود (۸۸۷ا) ابن ماجہ (۲۹۵۲) احمد (۱/ ۴۵) اسی طرح حاکم (۱/ ۴۵۴) بیہقی (۵/ ۷۹) اور ابو یعلی (۱۸۸) نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی سند میں ہشام بن سعدہیں۔ ذہبی نے انھیں الکاشف میں ’’حسن الحدیث‘‘ کہا ہے، لہٰذا یہ سند حسن درجہ کی ہے۔ حاکم نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔