کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 208
مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
(( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَأَصْحَابَہٗ اِعْتَمَرُوْا مِنْ جِعِرَّانَۃَ فَرَمَلُوْا بِالْبَیْتِ، وَجَعَلُوْا اَرْدِیَتَھُمْ تَحْتَ آبَاطِھِمْ، ثُمَّ قَذَفُوْھَا عَلٰی عَوَاتِقِھِمُ الْیُسْرَیٰ )) [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے جعرانہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ کیا اور بیت اللہ شریف کے گرد رمل چال سے طواف کیا اور اپنی اوپر والی چادروں کو اپنی (دائیں) بغلوں کے نیچے سے گزار کر انھیں اپنے بائیں کندھوں پر ڈال لیا۔‘‘
سنن ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی اور مسند احمد میں حضرت ابو یعلی بن امیہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی حدیث کے مطابق یہ ہیئت یعنی اضطباع صرف پہلے طواف کے سات چکروں کے ساتھ ہی خاص اورمسنون ہے۔[2]
[1] اس حدیث کو ابو داود (۱۸۸۴) احمد (۳۰۶، ۳۷۱) اسی طرح طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۸/ ۱۲۴، ۱۴/ ۶۲) میں اور بیہقی (۵/ ۷۹) نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
[2] حدیثِ یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ، یہ حدیث صحیح ہے؛ اس کو ابو داود (۱۸۸۳) ترمذی (۸۵۹) ابن ماجہ (۲۹۵۴) دارمی (۲/ ۴۳) بیہقی (۵/ ۷۹) احمد (۴/ ۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴) اور خطیب نے ’’الموضح‘‘ (۱/ ۲۸۶) میں یعلی بن اُمیہ سے روایت کیا ہے۔ انھیں یعلی بن منیہ بھی کہا جاتا ہے۔ منیۃ ان کی والدہ کا نام ہے، جیساکہ خطیب بغدادی نے امام بخاری سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کو یعلی بن امیہ سے روایت کرنے والے ان کے بیٹے ہیں۔ اس حدیث کی سند میں ان کے نام کی صراحت تو نہیں ہے مگر یہ صفوان بن یعلی ہیں کیونکہ حافظ مزی نے ’’تہذیب الکمال‘‘ (۱۳/ ۲۱۸، ۲۱۹) میں اسی صفوان ہی کے ترجمہ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے ’’تحفۃ الاشراف‘‘ (۹/ ۱۱۵/ ۱۸۳۹) میں بھی اس حدیث کو صفوان کی اپنے باپ (یعلی بن اُمیہ) سے روایت کردہ احادیث میں ذکر کیا ہے، اسی لیے حافظ ابن حجر ’’تہذیب‘‘ میں صفوان کے ترجمہ میں اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ صفوان ہی ہے جیساکہ مزی نے ’’الاطراف‘‘ میں بالجزم کہا ہے۔ صفوان ثقہ ہیں جیساکہ ’’تقریب‘‘ میں ہے اور ان سے بخاری ومسلم نے حجت لی ہے۔ اس حدیث کی سند میں ابن جریج بھی ہیں، اور یہ مدلس ہیں۔ ابو داود اسی طرح احمد اور بیہقی کی ایک روایت میں انھوں نے اس حدیث کو یعلی بن امیہ کے بیٹے (صفوان )سے روایت کیا ہے اور یہاں انھوں نے تدلیس کی ہے، کیونکہ ’’الموضح‘‘ اور احمد کی ایک دوسری روایت میں انھوں نے اس کو ایک نامعلوم آدمی کے واسطے سے یعلی بن اُمیہ کے بیٹے (یعنی صفوان) سے روایت کیا ہے اور یہ نامعلوم آدمی عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ ہیں جیسا کہ دوسری کتب میں صراحت ہے اور یہ ثقہ ہیں لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ترمذی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔تنبیہ۔ ۱: مسند احمد (۴/ ۲۲۳) کی ایک روایت میں اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت (اضطباع) صفا ومروہ پر سعی کرتے وقت تھی مگر اس سند میں ’’عمر بن ہارون ابو حفص البلخی‘‘ ہے۔ ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں اس کو ’’واہ‘‘ اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں اسے ’’متروک‘‘ کہا ہے بلکہ ابن معین سے ایک روایت کے مطابق یہ کذاب ہے۔ الحاصل یہ سند سخت ضعیف ہے۔
۲۔ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، اس کو بخاری اور مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: نمبر (۱۶۸) میں۔