کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 206
حجرِ اسود کو بوسہ دینے، اسے ہاتھ سے چھونے یا پھر محض دور سے اس کی طرف اشارہ کرنے اور (( بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَر )) کہنے کے بعد صحیح مسلم میں مذکور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کے مطابق خانۂ کعبہ کو اپنی بائیں جانب رکھیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کرتے ہیں:
(( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ أَتَیٰ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ فَاسْتَلَمَہٗ، ثُمَّ مَشَیٰ عَلـٰی یَمِیْنِہٖ (وفي لفظ:) ثُمَّ مَضَیٰ عَنْ یَمِیْنِہٖ )) [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حجرِ اسود پر پہنچ کر اس کا استلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا س کی دائیں جانب سے چلنے لگے۔‘‘
طواف کے شروع میں ایک دعا بڑی معروف ہے :
(( اَللّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَتصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَوَفَائً بِعَھْدِکَ وَاِتِّبَاعاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم )) [2]
[1] یہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور اس کی تخریج نمبر (۱۹۳) میں آئے گی۔
[2] اس دعا کا طواف شروع کرتے وقت پڑھنا علی بن ابی طالب، ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ اسی طرح ابن عمر اور ابن جریج کی مرفوع حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔
۱۔ اثرِ علی کو طیالسی (۱/ ۲۱۶) ابن ابی شیبہ (۳/ ۴۴۱، ۶/ ۸۱، دارالتاج) فاکہی نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۱/ ۹۹، ۱۰۰) میں، طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۴۹۶) میں اور بیہقی (۵/ ۷۹) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حارث الاعور کی وجہ سے ضعیف ہے۔
۲۔ اثرِ ابن عباس کو عبد الرازق (۸۸۹۸، ۸۸۹۹) نے ان سے دو سندوں سے روایت کیا ہے پہلی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبیداللہ العزرمی اور جویبر بن سعید ہے۔ عزرمی کو حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں متروک اور جویبر کو سخت ضعیف کہا ہے۔ اور دوسری سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ نیز اس میں حجاج بن ارطاۃ بھی ہیں اور یہ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔
۳۔ ابن عمر کے اثر کو طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔ حافظ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘(۳/ ۲۴۳) میں اس کے راویوں کو ’’صحیح‘‘ کے راوی قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی نے ’’حجۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ (۱۱۵) میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور ہیثمی کا رد کیا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع روایت کی سند سخت ضعیف ہے اور ابن جریج کی روایت والی سند معضل ہے۔ ان دونوں روایتوں کی تخریج اور ان کی سندوں پر کلام حدیث (151) میں ہو چکا ہے، لہٰذا وہاں ملاحظہ کریں۔
فائدہ: ابن الحاج نے ’’المدخل‘‘ (۴/ ۲۲۵) میں ذکر کیا ہے کہ امام مالک سے اس دعا کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے اس کو بدعت کہا اور فاکہی (۱/ ۱۰۱) نے عطاء سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا اس بدعت کے موجد عراقی ہیں۔ واللّٰه أعلم