کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 204
’’حجرِ اسود جنت کا پتھر ہے اور یہ برف سے بھی زیادہ سفید و شفاف تھا مگر مشرکین کے گناہوں نے اسے کا لا کردیا ہے۔‘‘
دھکم پیل سے احتراز:
حجرِ اسود کے ان فضائل کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہرشکل میں اسے بوسہ دینے یاہاتھ سے چھونے کی کوشش کی جائے بلکہ صرف اشارہ کردینے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ یہ طریقہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاتعلیم فرمودہ ہے۔
ویسے بھی وہاں دھکم پیل، سینہ زوری اور زور آزمائی کرنا جائز نہیں کیونکہ السنن الماثورہ شافعی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا:
(( یَا عُمَرُ! اِنَّکَ رَجُلٌ قَوِيٌّ فَلَا تُؤْذِ الضَّعِیْفَ، وَاِذَا أَرَدْتَّ اِسْتِلَامَ الْحَجَرِ، فَاِنْ خَلَا لَکَ فَاسْتَلِمْہُ وَإلَّا فَاسْتقْبِلْہُ وَکَبِّرْ )) [1]
[1] اس حدیث کو شافعی نے ’’السنن المأثورۃ‘‘ (۵۱۰) میں، احمد نے ’’مسند‘‘ (۱/ ۲۸) میں، اسی طرح عبدالرزاق (۸۹۱۰) ازرقی (۱/ ۳۳۳، ۳۳۴) فاکہی (۱/ ۱۰۹) اور بیہقی (۵/ ۸۰) نے بھی روایت کیا ہے۔ اس سند میں ایک راوی مجہول ہے مگر ’’السنن المأثورۃ‘‘ میں سفیان بن عیینہ نے صراحت کی ہے کہ یہ (مجہول) عبدالرحمن بن نافع بن عبد الحارث ہے۔ عبد الرحمن بن نافع کو ابن حبان نے ’’الثقات‘‘ (۵/ ۸) میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں اور ان سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ ابن عدی (۶/ ۲۴۵۰) اور بیہقی نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے۔ یہ سند اگرچہ مفضل بن صالح الاسدی کی وجہ سے ضعیف ہے مگر ان دونوں سندوں کو ملا لینے سے یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ ازرقی (۱/ ۳۳۴) نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جگہ مل جانے کی صورت میں استلام کرتے اور بِھیڑ کے وقت (صرف) تکبیر کہتے۔ اس سند کے سب راوی ثقہ ہیں مگر اس میں انقطاع ہے۔ عبدالرزاق (۸/ ۸۹) ازرقی (۳۳۴۸) فاکہی (۱/ ۱۰۳، ۱۳۰، ۱۳۱) شافعی نے ’’الام‘‘ (۲/ ۱۷۲) میں اور بیہقی (۵/ ۸۰، ۸۱) نے عطاء سے روایت کی ہے کہ انھوں نے ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا:
(( اِذَا وَجَدْتَّ عَلَی الرُّکْنِ زِحَاماً فَلَا تُؤْذِ اَحَداً وَلَا تُؤْذَ وَامْضِ )) (واللفظ لعبد الرزاق والفاکھی)
’’جب تم حجرِ اسود پر بِھیڑ دیکھو تو نہ تم ہی کسی کو تکلیف دو اور نہ ہی تمھیں تکلیف دی جائے اور استلام کیے بغیر ہی گزر جائو۔‘‘ اس اثر کی سند صحیح ہے۔