کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 203
’’حجرِ اسود اوررکنِ یمانی کوچُھونا گناہوں اورخطاؤں کومٹادیتا ہے۔‘‘[1] جبکہ سنن ترمذی و صحیح ابن خزیمۃ اورمسند احمد میں ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اَلْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَکَانَ أَشَدَّ بَیَاضاً مِنَ الثَّلْجِ حَتّٰی سَوَّدَہٗ خَطَایَا أَھْلِ الشِّرْکِ )) [2]
[1] ے اور ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ وغیرہ میں سفیان ثوری نے روایت کیا ہے اور ان دونوں کا عطاء سے سماع ان کے حافظہ کی خرابی سے پہلے کا ہے، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن کہا ہے۔ مزید اس کی صحت پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی دو اور سندیں بھی ہیں۔ ان میںسے ایک سند سے اس کو ازرقی (۲/ ۱۲) نے روایت کیا ہے اور اس سند میں کچھ کمزوری ہے۔ اور دوسری سند سے اسے ابن عدی (۶/ ۱۲۷۲) اور ابن عدی سے اس کو سہمی نے ’’تاریخ جرجان‘‘ (۳۵۸) میں روایت کیا ہے مگر یہ سند محمد بن الفضل بن عطیہ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔  یہ بھی صحیح حدیث ہے۔ اس کو احمد (۱/ ۳۰۷، ۳۲۹) ترمذی (۸۷۷) ابن خزیمۃ (۲۷۳۳) فاکہی (۱/ ۸۴) طبرانی (۱۱؍ ۴۵۳) ابن عدی (۲/ ۶۷۹) اور بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (۷/ ۵۸۵) میں روایت کیا ہے۔ اس کے پہلے ٹکڑے (( اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃِ )) کو نسائی (۵/ ۲۲۶) نے بھی روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی سند میں بھی مذکورہ سابقہ حدیث کی سند کی طرح عطاء بن السائب ہیں مگر پہلے تینوں کے علاوہ باقی سب کے ہاں ان سے اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک جن میں ابن معین اور ابو داود بھی ہیں، ان کا سماع بھی عطاء سے حماد بن زید اور سفیان ثوری وغیرہ کی طرح ان کے حافظہ کی خرابی سے پہلے ہے۔ دیکھیں: ’’شرح مقدمۃ ابن الصلاح‘‘ للعراقي (۴۴۳، ۴۴۴) اور یہی بات حافظ منذری نے ’’الترغیب والترھیب‘‘ میں بعض مقامات پر کہی ہے۔ دیکھیں: (۲/ ۴۴۴) باب ’’الترغیب في قول: لاحول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ حدیث (۴) نیز حافظ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں بعض مقامات پر ایسا ہی کہا ہے۔ دیکھیں (۲/ ۱۰۸، ۱۰/ ۱۰۰ مؤسسۃ المعارف) اسی طرح حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ (۳/ ۴۶۲ باب ما ذکر في الحجر الاسود) اور ’’تلخیص الحبیر‘‘ (۱/ ۱۴۲) میں بالجزم کہا ہے کہ حماد بن سلمۃ کا عطاء سے سماع عطاء کے اختلاط سے پہلے ہے۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ترمذی نے بھی صحیح کہا ہے اور البانی نے ’’تحقیق المشکاۃ‘‘ (۲/ ۹۲) میں ان کی تائید کی ہے۔ تنبیہ: ترمذی میں برف کی بجائے دودھ کا ذکر ہے۔ اسی طرح ترمذی، ابن خزیمہ اور طبرانی میں ’’أہل الشرک‘‘ کی بجائے ’’بنی آدم‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں۔ [2]