کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 201
(( لَیَبْعَثَنَّ اللّٰہُ الْحَجَرَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَہٗ عَیْنَانِ یُبْصِرُ بِھِمَا، وَلِسَانٌ یَّنْطِقُ بِہٖ، وَیَشْھَدُ عَلٰی مَنِ اسْتَلَمَہٗ بِحَقٍّ )) [1]
[1] اس حدیث کو ترمذی (۹۶۱) دارمی (۲/ ۴۲)ابن ماجہ (۲۹۴۴) ابن خزیمۃ (۲۷۳۵، ۲۷۳۶) ابن حبان (۱۰۰۵) طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۲/ ۶۳) میں، فاکہی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۱/ ۸۲، ۸۳) میں، حاکم (۱/ ۴۵۷) بیہقی نے ’’سنن‘‘ (۵/ ۷۵) اور ’’شعب الایمان‘‘ (۷/ ۵۸۶- ۵۸۷) میں، احمد (۱/ ۲۴۷، ۲۶۶، ۲۹۱، ۳۰۷، ۳۷۱) ابو یعلی (۲۷۱۹) اور ابو نعیم نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ (۶/ ۲۴۳) میں سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ ترمذی، ابن خزیمۃ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ اس کے بعض شواہد بھی ہیں۔ ان شواہد میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ اور علی رضی اللہ عنہم کی حدیثیں ہیں: ۱۔ حدیثِ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو احمد (۲/ ۲۱۱) ابن خزیمۃ (۲۷۳۷) اور حاکم (۱/ ۴۵۷) نے روایت کیا ہے۔ حاکم نے اس کو صحیح کہاہے مگر ا س کی سند میں عبداللہ بن المؤمل ہے اوریہ ضعیف ہے۔ اس لیے ذہبی نے اس پر حاکم کا تعاقب کیا ہے ۔ ۲۔ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کو طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں الولید بن عباد ہے جو مجہول ہے، جیسا کہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (۳/ ۲۴۵) میں کہا ہے۔ ۳۔ حدیثِ علی رضی اللہ عنہ کو حاکم (۱/ ۴۵۷) اور ان سے اسے بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (۷/ ۵۸۹، ۵۹۰) میں روایت کیا ہے۔ اس حدیث میں عمر اور علی رضی اللہ عنہ کا ایک طویل مکالمہ بھی مذکور ہے مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ابو ہارون عمارۃ بن جوین ہے۔ ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں اس کو متروک کہا ہے۔ حافظ صاحب نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ بعض محدثین نے اس کو کذاب کہا ہے۔ نیز ذہبی نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں اس کو ساقط کہا ہے۔ تنبیہ: حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۱۸۲) میں ابن عباس سے عطاء کے واسطے سے بھی روایت کیا ہے اور اس میں حجرِ اسود کے ساتھ رکن یمانی کا بھی ذکر ہے۔ مگر اس کا ذکر منکر (ضعیف) ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی الحارث بن غسان ہے۔ اس کے بارے میں عقیلی (۱/ ۳۹۳) نے کہا ہے کہ اس نے مناکیر (