کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 198
حجرِ اسود کو بوسہ دینا اور بلا واسطہ اپنے ہونٹوں سے چومنا عام حالات میں تو ممکن ہے مگر ماہِ رمضان المبارک اور خصوصاً موسمِ حج میں اس کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے کیونکہ رمضان المبارک میں عمرۂ رمضان کی فضیلت حاصل کرنے والے اہلِ ثروت وسعادت بکثرت جمع ہو جاتے ہیں اور موسمِ حج میں تو لاکھوں کا جمِ غفیر ضیوف الرحمن کی شکل میں وہاں موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر حجرِ اسود کا بلا واسطہ بوسہ لینا ممکن نہ ہو تو صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے مطابق اسے اپنے دائیں ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے چھوئیں اور پھر اپنے ہاتھ یا چھڑی کو چوم لیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( طَافَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ حَجَّۃِ الوَدَاعِ عَلـٰی بَعِیْرٍ، یَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمِحْجَنٍ )) [1] ’’حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک چھڑی کے ساتھ حجرِ اسود کااستلام کرتے (چُھوتے) تھے۔‘‘ حضرت ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے : (( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ، ویَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَہٗ، وَیُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ )) [2] ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کررہے تھے اور اپنی چھڑی سے حجرِ اسود کو چُھوتے اور اس چھڑی (کے اس حصہ) کو چومتے تھے۔‘‘
[1] اس حدیث کو بخاری (۱۶۰۷) مسلم (۹/ ۱۸) ابو داود (۱۸۷۷) نسائی (۵/ ۱۳۳) ابن ماجہ (۲۹۴۸) ابن الجارود (۴۶۳) ابن خزیمۃ (۲۷۸۰) اور بیہقی (۵/ ۹۹) نے روایت کیا ہے۔ [2] اس کو مسلم (۹/ ۲۰) ابو داود (۱۸۷۹) ابن ماجہ (۲۹۴۹) ابن الجارود (۴۶۴) اور بیہقی (۵/ ۱۰۰، ۱۰۱) نے روایت کیا ہے۔