کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 196
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔‘‘ ایسے ہی صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حائضہ ہوجانے کا واقعہ بھی طہارت کے ضروری ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ اس حدیث میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے روتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ شائد تم حائضہ ہوگئی ہو؟ میںنے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( …اِنَّ ھَذَا شَيْئٌ کَتَبَہٗ اللّٰہُ عَلَیٰ بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِيْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَیْرَ أَنْ لَّا تَطُوْفِيْ بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَطْھُرِيْ )) [1] ’’یہ ایسی چیز ہے جو آدم ( علیہ السلام ) کی تمام بیٹیوں (عورتوں )پرلکھی گئی ہے۔ پس تم ہر وہ کام کرتی جاؤ جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ بیت اﷲ کا طواف نہ کرو حتیٰ کہ تم غسل کرلو۔‘‘ باوضو ہوکر حرم شریف میں پہنچتے ہی طواف کاآغاز کر دیں۔ اسے طوافِ قدوم، طوافِ ورود، اور طوافِ تحیہ بھی کہا جاتا ہے اور جن لوگوں نے قربانی ساتھ نہیں لی ہوتی اور حجِ تمتُّع کررہے ہوتے ہیں؛ ان کا یہی طواف ’’طوافِ عمرہ‘‘ ہوگا۔ طریقۂ طواف: طواف کامسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حجر اسود کے سامنے آئیں اور (( بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ))کہہ کر اسے بوسہ دیں۔ کیو نکہ صحیح بخاری میں حضرت
[1] اس حدیث کو بخاری (۲۹۴، ۳۰۵) ’’الحیض‘‘ مسلم (۸/ ۱۴۶) ’’الحج‘‘ اسی طرح ابو داود (۱۷۸۲) ’’الحج‘‘ نسائی (۱/ ۱۸۰) ’’الحیض‘‘ ابن ماجہ (۲۹۶۳) ’’المناسک‘‘ ابن الجارود (۴۶۶) ابن خزیمۃ (۲۹۳۶) بیہقی (۱/ ۳۰۸، ۵/ ۶۰۳) طیالسی (۱/ ۲۰۴، ۲۰۵) اور احمد (۶/ ۳۹، ۲۱۹، ۲۷۳) نے مختلف واسطوں سے عبد الرحمن بن القاسم سے اور انھوں نے اپنے باپ قاسم کے واسطے سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔