کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 193
ساتھ شیطانِ مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اب آپ حرم شریف کے سائے میں ہیں۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو مسجدِ حرام کے عین وسط میں بیت اللہ شریف ہے، جو پورے عالم انسانیت کے لیے مرکزیت کی روشن علامت ہے۔ جسے دیکھنا ہر دلِ مسلم کی تمنا وآرزو اورتڑپ ہے۔ سنہری تاروں سے مزین، سیاہ غلاف میں مستور یہی خانہ کعبہ ہے جس کے درودیوار کی زیارت کا شوق ہر مومن کے دل میں اٹھکیلیاں لیتا ہے، جذباتِ شوق کا دامن ہاتھوں سے چُھوٹا جاتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس کیفیت کو لفظوں کاجامہ پہنانا ہی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس ایمان افروز نظارے سے ہمکنار کرے۔ آمین یاالٰہ العالمین۔ جب کعبہ شریف پر نظر پڑے تو اس وقت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے توکوئی خاص دعا ثابت نہیں، البتہ سنن بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبۃ میںمذکور اثرِ فاروقی واثرِ سعید بن مسیب والی رؤیتِ کعبہ کی یہ دعا کرسکتا ہے : (( الَلّٰھُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ )) [1] ’’اے اللہ! تو سلام ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ملتی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ۔‘‘ رؤیتِ کعبہ کے وقت ایک روایت کے مطابق تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں
[1] ۱۔ اثرِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کو ابن ابی شیبۃ (۴/ ۹۷) ازرقی نے ’’اخبار مکہ‘‘ (۱/ ۲۷۸- ۲۷۹) میں اور بیہقی (۵/ ۷۳) نے سعید بن المسیب کے واسطے سے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ یہ اثر صحیح ہے۔ اس کی سعید بن المسیب سے تین سندیں ہیں: ۲۔ اثرِ سعید بن المسیب کو شافعی نے ’’الام‘‘ (۲/ ۱۶۹) اور مسند (۱۲۵) میں، ابن ابی شیبۃ (۴/ ۹۷) اور بیہقی (۵/ ۷۳) نے سعید بن المسیب کے بیٹے (محمد بن سعید بن المسیب) کے واسطے سے ابن المسیب سے روایت کیا ہے۔ ۳۔ ازرقی نے ’’اخبارِ مکہ‘‘ (۱/ ۲۷۹) میں اس کو سعید بن المسیب سے ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے اور یہ اثر بھی صحیح ہے۔