کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 190
ثنیۂ کداء بھی کہا جاتا ہے جس کے زیریں مکہ مکرمہ کا قبرستان (جنت المعلّیٰ) ہے، اس راستہ سے آئیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمَّا جَائَ اِلـٰی مَکَّۃَ دَخَلَھَا مِنْ أَعْلَاھَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِھَا )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اس کی بالائی جانب سے اس میں داخل ہوئے اور اس کی زیریں جانب سے نکلے تھے۔‘‘ اگر کسی وجہ سے اس ادب کو اپنانا بھی ممکن نہ ہو تو کوئی حرج نہیں کیو نکہ سنن ابوداود وابن ماجہ و بیہقی اورمستدرک حاکم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: (( کُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَمَنْحَرٌ )) [2] ’’سارامکہ مکرمہ ہی راستہ اورجائے نحر وقربانی ہے ۔ ‘‘ ان الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرمادی کہ اگر کوئی شخص (مذکورہ ادب ملحوظ نہ رکھ سکے تو) مکہ مکرمہ میں چاہے کسی بھی راستے سے داخل ہو جائے اور پوری وادیٔ مکہ میں کہیں بھی قربانی کرلے تو یہ درست اور جائز ہے۔ شہرِ مکہ میں داخل ہونے کی کوئی مخصوص دعا تو نہیں، اس لیے عام شہروں میں
[1] اس کو بخاری (۱۵۷۷) مسلم (۹/ ۴) ابو داود (۱۸۶۹) ترمذی (۸۵۳) بیہقی (۵/ ۷۱) اور احمد (۲/ ۴۰) نے روایت کیا ہے۔ [2] اس کو ابو داود (۱۹۳۷) ’’باب الصلوٰۃ بجمع‘‘ ابن ماجہ (۳۰۴۸) ’’باب الذبح‘‘ دارمی (۲/ ۵۶- ۵۷) ’’باب عرفۃ کلھا موقف‘‘ ابن خزیمۃ (۲۷۸۷) عقیلی (۱/ ۱۸- ۱۹) حاکم (۱/ ۴۶۰) بیہقی (۵/ ۱۲۲، ۱۷۰) احمد (۳/ ۳۲۶) اور عبد بن حمید نے ’’المنتخب من المسند‘‘ (۱۰۰۴) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ ابن خزیمۃ، حاکم اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے۔