کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 189
مَرَّ بِذِیْ طُوَیٰ وَبَاتَ بِھَا حَتّٰی یُصْبِحَ، ویَذْکُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ )) [1] ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی مکہ مکرمہ آتے تو رات ذی طویٰ میں گزارتے، فجر کی نماز وہیں اداکرتے اورغسل کر کے مکہ شریف کی طرف روانہ ہوتے اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے، اور جب وہاں سے واپسی ہوتی تو بھی ذی طویٰ میں رات گزارکر صبح کو وہاں سے روانہ ہوتے اورفرماتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیاکرتے تھے۔‘‘ سنن ترمذی اور مسند احمد میں بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم دَخَلَ مَکَّۃَ نَھَاراً )) [2] ’’(حجۃ الوداع کے موقع پر )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں دن کے وقت داخل ہوئے۔‘‘ یہ آداب ِ مسنونہ ہیں اور انھیں اپنانا کارِ ثواب اور افضل ہے مگر یہ واجبات میں سے بہر حال نہیں۔ لہٰذا اگر کسی کے لیے مقامِ ذی طویٰ پر رات گزارنا ، غسل کرنا اور دن کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہونا ممکن نہ ہو تو ثواب وفضیلت میں کمی توواقع ہوجائے گی مگر اس پر کوئی گناہ یا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ شہرِ مکہ میں داخل ہونے کے لیے شہر کی بالائی جانب سے ثنیۂ علیا جسے
[1] بخاری (۱۵۵۳، ۱۵۷۳) مسلم (۹/ ۵) ابو داود (۱۸۶۵) بیہقی (۵/ ۷۱) اسی طرح اسے ابن خزیمۃ (۲۶۹۵) اور احمد (۲/ ۱۴، ۱۵۷) نے بھی روایت کیا ہے۔ [2] ترمذی (۸۵۴) ابن ماجہ (۲۹۴۱) احمد (۱۲/ ۷، الفتح الربانی) اس کی سند تقریباً حسن درجہ کی ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے مگر اصل حدیث صحیح ہے کیونکہ بخاری (۱۵۷۴) اور مسلم (۹/ ۵) میں اس مفہوم کی ابن عمر سے دوسری روایت مروی ہے۔ نیز دیکھیں: حدیث نمبر (۱۳۶)۔