کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 179
(( اِحْتَجَمَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم وَھُوَ مُحْرِمٌ (وَفي روایۃ:) فِيْ رَأْسِہٖ مِنْ صُدَاعٍ )) [1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں فصد کروائی (اور ایک روایت میں ہے )یہ فصد ایک درد کی وجہ سے سر میں کروائی تھی۔‘‘ جبکہ سنن ابو داود ونسائی اور مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم اِحْتَجَمَ، وَھُوَ مُحْرِمٌ، عَلَیٰ ظَھْرِ الْقَدَمِ، مِنْ وَجَعٍ کَانَ بِہٖ )) [2] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں پر فصد کروائی۔‘‘ سر میں فصد کروانے کے لیے کچھ بال کاٹنے ضروری ہوتے ہیں مگر ان احادیث میں کسی فدیے کاکوئی ذکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ایسی مجبوری کی صورت میں تھوڑے سے بال کٹوانے پر بھی کوئی فدیہ نہیں ہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ للألباني، ص: ۹، ۱۰)
[1] بخاری (۱۸۳۵، ۵۶۹۵، ۵۷۰۰، ۵۷۰۱) ’’جزاء الصید والطب‘‘ مسلم (۸/ ۱۲۳) ابو داود (۱۸۳۵، ۱۸۳۶) ترمذی (۸۳۹) نسائی (۵/ ۱۹۳) مسند احمد (۱/ ۲۳۶، ۲۴۹، ۲۵۹، ۲۹۲، ۳۵۱، ۳۷۲، ۳۷۴) اسی طرح ابن خزیمۃ (۲۶۵۱، ۲۶۵۷) حاکم (۱/ ۴۵۳) اور بیہقی (۵/ ۶۴) نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ اسی طرح دارمی (۲/ ۳۶، ۳۷) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ [2] ابو داود (۱۸۳۷) نسائی (۵/ ۱۹۴) مسند احمد (۳/ ۱۶۴) ابن خزیمۃ (۲۶۵۹) حاکم (۱/ ۴۵۳) بیہقی (۹/ ۳۳۹) بغوی (۱۹۸۶) اور ابو یعلی (۳۰۴۱) اس کی سند صحیح ہے۔ ابن خزیمۃ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ حاکم اور ذہبی نے اس کو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور یہ ان کی شرط پر ہی ہے۔