کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 168
’’ہم جُحفہ کے مقام پر احرام کی حالت میں تھے کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آؤ پانی میں غوطہ لگا کر دیکھیں کہ ہم میں سے زیادہ لمبی سانس کس کی ہے ؟‘‘ (نیل الأوطار: ۳/ ۶/ ۱۳) امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک سر کو پانی کے نیچے ڈھکنا بھی مکروہ ہے لیکن یہ اثرِ فاروقی ان کی تردید کررہا ہے۔ احرام کو بدلنا یا دھونا: احرام کے طورپر باندھی ہوئی چادروں یا عورتوں کے لباس کو کوئی غلاظت لگ جائے یا وہ زیادہ میلے ہوجائیں تو انھیں دھویا بھی جاسکتا ہے اور اگر دوسرے نئے کپڑے موجود ہوں تو انھیں بدلنا بھی جائز ہے۔ (التحقیق والإیضاح لابن باز، ص: ۲۶، فقہ السنۃ: ۱/ ۶۶۵) اس سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری میں تعلیقاًاور سنن دارقطنی و بیہقی میں موصولاً مروی ہے : (( یَدْخُلُ الْمُحْرِمُ وَیَنْزِعُ ضِرْسَہٗ، وَاِذَا انْکَسَرَ ظُفْرُہٗ طَرَحَہٗ، وَیَقُوْلُ: اَمِیْطُوْا عَنْکُمُ الْأَذَیٰ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَصْنَعُ بِأَذَاکُمْ شَیْئاً )) [1] ’’محرم حمام میں جا(نہا)سکتا ہے اور داڑھ نکال (یا نکلوا)سکتا ہے۔ اگر کوئی ناخن ٹوٹ جائے تو اسے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے۔ اور وہ کہاکرتے تھے کہ اپنے آپ سے میل کچیل دور کرو کیونکہ اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔‘‘
[1] دارقطنی (۲/ ۲۳۲، ۲۳۳) اور ان کے طریق سے بیہقی نے روایت کیا ہے۔ (۵/ ۶۳) اس سند کے سب راوی ثقہ ہیں مگر ابن جریج مدلّس ہے مگر اس اثر کو وہ ایوب سے بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ بیہقی (۵/ ۶۲) میں ایوب سے اس اثر کو سفیان ثوری نے بھی روایت کیا ہے۔ (( اَمِیْطُوْا عَنْکُمُ ۔۔۔ )) یہ الفاظ بیہقی میں سفیان ہی کے ہیں۔