کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 137
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حدودِ حرم میں داخل ہوتے تو تلبیہ کہنا بند کردیتے۔ پھر مقامِ ذی طویٰ میں رات گزارتے، وہیں فجر پڑھتے اورپھر غسل کرتے۔ اوربیان کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیاکرتے تھے۔‘‘[1]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ شہرِ مکہ دیکھ لینے اور حدودِ حرم میں داخل ہونے تک تلبیہ جاری رکھا جائے گا جبکہ سنن ابو داود وترمذی کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ طواف اور حجرِ اسود کے استلام تک تلبیہ جاری رکھا جائے۔ امام ترمذی سے نقل کرتے ہوئے سید سابق نے غالباً ان دونوں قسم کی احادیث کو جمع کرنے کے لیے ہی لکھا ہے کہ جب حاجی کسی میقات سے احرام باندھ کر آرہا ہو تودخولِ حرم پر تلبیہ کہنا بند کردے اور اگر تنعیم یا جعرانہ سے احرام باندھا ہو تو جب شہرِ مکہ میں داخل ہوجائے تو تلبیہ کہنا منقطع کردے۔
( فقہ السنۃ: ۱/ ۶۶۴، حاشیہ)
[1] ملاحظہ ہو: اس کتاب کی حدیث (۳۱۰)
امام ترمذی فرماتے ہیں صحابہ اور صحابہ میں سے بھی اہلِ علم کا یہی قول ہے کہ حاجی کوجمرہ کی رمی کرنے تک تلبیہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ شافعی، احمد اور اسحاق کابھی یہی قول ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’جامع الترمذي، باب ماجاء متیٰ تقطع التلبیۃ في الحج‘‘
رہی حدیثِ ابن عمر تو اس کے دو جواب ہیں:
۱۔ ابن عمر کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کرتے تھے ممکن ہے۔ اس سے ان کی مراد ذی طویٰ میں رات بسر کرنا اوروہاں صبح کی نماز پڑھنااورغسل کرنا ہو۔
۲۔ دوسرے صحابہ کی احادیث میں اضافہ ہے۔ یعنی انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد تلبیہ بندکرتے تھے جس کا ابن عمر کو علم نہ ہوا ہو۔ اس اضافہ کو لینا ضروری ہے کیونکہ یہ ثقات کی طرف سے ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’محلی ابن حزم‘‘ (۷/ ۱۳۸) حاصلِ کلام: عمرہ کرنے والا حجر اسود کے استلام کے وقت تلبیہ بند کرے مگر حاجی جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد تلبیہ بند کرے گا۔ سید سابق نے حدیثِ ابن عباس اور حدیثِ ابن عمر میںجو تطبیق دی ہے اس میں تکلّف ہے۔ مؤلفِ فقہ السنہ کے کہنے کے مطابق انھوں نے یہ تطبیق امام ترمذی سے نقل کی ہے جبکہ ترمذی نے یہ تطبیق نہیں دی۔