کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 136
توتلبیہ کہتے ہیں (اورایک روایت میں ہے:) میں گویا موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو کہ ثنیۃ الوداع نامی گھاٹی سے اتررہے ہیں اورکثرتِ تلبیہ سے قربِ الٰہی حاصل کیے ہوئے ہیں۔‘‘ غرض فرض نمازوں کے بعد اورسحری کے وقت بکثرت تلبیہ کہنا چاہیے۔ صحیح بخاری اور سنن بیہقی میں مذکور ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ احرام باندھنے سے لے کر حدودِ حرم تک یہ تلبیہ کی کثرت جاری رہنی چاہیے۔ چنانچہ حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : (( کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اللّٰه عنهما اِذَا دَخَلَ اَدْنَی الْحَرَمِ اَمْسَکَ عَنِ التَّلْبِیَۃِ، ثُمَّ یَبِیْتُ بِذِیْ طُوَیٰ، ثُمَّ یُصَلِّیْ بِہٖ الصُّبْحَ، وَیَغْتَسِلُ، ویُحدِّثُ أنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ )) [1]
[1] اس کو بخاری (۱۵۷۴) اور بیہقی (۵/ ۷۱) نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے بعد مؤلف نے ابو داود اور ترمذی کی جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ اسے ابو داود (۷ا۱۸) ترمذی (۹۱۹) اور اسی طرح طبرانی نے بھی ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۱/ ۱۴۹) میں روایت کیا ہے۔ ابو داود میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرہ کرنے والا حجرِاسود کے استلام تک تلبیہ کہے۔‘‘ جبکہ ترمذی اور طبرانی میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرِ اسود کے استلام کے وقت تلبیہ بند کرتے تھے۔‘‘ طبرانی میں یہ اضافہ بھی ہے: ’’اور حج میں قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد تلبیہ بند کرتے۔‘‘ مگر اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہیں اور یہ بہت زیادہ سییٔ الحفظ ہیں۔ نیز عبدالملک بن ابی سلیمان اور ہمام نے ان کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے اس حدیث کو ابن عباس کا قول بیان کیا ہے جیسا کہ امام ابو داود نے کہا ہے۔ طبرانی (۱۱/ ۳۷، ۳۸) میںاس کی ایک دوسری سند بھی ہے مگر یہ سند بھی ضعیف ہے۔ ان دونوں سندوں کی بنا پر اگر ہم اس حدیث کو حسن کہہ لیں تو اس کے مطابق عمرہ کرنے والے کو حجرِ اسود کے چھونے کے وقت تلبیہ بند کرنا چاہیے اور اکثر اہلِ علم کا یہی قول ہے۔ ملاحظہ ہو:’’جامع ترمذی‘‘ مگر حج میں جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد تلبیہ بند کیا جائے جیسا کہ متعد د احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافعل مروی ہے اور ان میں سے بعض احادیث بخاری اور مسلم میں بھی ہیں۔ (