کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 134
’’میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے صحابہ کو حکم فرمائیں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ کہیں ، کیونکہ یہ شعائرِ حج میں سے ایک شعار ہے ۔ ‘‘[1] اس تلبیہ کی فضیلت کا اندازہ سنن ترمذی، ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ، بیہقی اور مستدرک حاکم میں مذکور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوجاتا ہے جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبِّيْ اِلَّا لَبَّیٰ مَا عَنْ یَمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ، مِنْ حَجَرٍ وَشَجَرٍ وَمَدَرٍ، حَتّٰی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ ھَاھُنَا وَ ھَاھُنَا، عَنْ یَمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ )) [2]
[1] ۳۔ السائب بن خلاد کی حدیث کو مالک (۱/ ۳۳۴) ابو داود (۱۸۱۴) نسائی (۵/ ۱۶۲) ترمذی (۸۲۹) ابن ماجہ (۲۹۲۲) ابن خزیمہ، حاکم اور بیہقی نے خلاد بن السائب کے واسطے سے ان کے باپ السائب بن خلاد سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔ ترمذی، ابن خزیمۃ، حاکم اور نووی نے بھی ’’المجموع‘‘ (۷/ ۲۲۵) میں اس کو صحیح کہا ہے۔ امام ترمذی نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ بعض نے اس حدیث کو خلاد بن السائب کے واسطے سے خالد بن زید سے روایت کیا ہے مگر یہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح وہی حدیث ہے جو خلاد بن السائب نے اپنے باپ السائب بن خلاد سے روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص‘‘ (۲/ ۲۳۹) میں یہی بات امام بیہقی سے بھی نقل کی ہے، اسی طرح بوصیری نے بھی ’’مصباح الزجاجۃ‘‘ (۱۰۳۱) میں السائب بن خلاد کی حدیث کو ہی محفوظ کہا ہے۔ جبکہ امام حاکم نے ان سب اسانید کو صحیح کہا ہے مگر علّامہ ذہبی ان کی اس تصحیح پرمطمئن نظر نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حدیث السائب بن خلاد میں (( فَاِنَّہٗ مِنْ شَعَائِرِ الْحَجِّ )) کے الفاظ نہیں ہیں۔  اس حدیث کو ترمذی (۲۲۸) ابن ماجہ (۲۹۲۱) ابن خزیمۃ (۲۶۳۴) طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۲۵۸) میں، حاکم (۱/ ۴۵۱) ان سے بیہقی (۵/ ۴۳) اور ابو یعلی(۷۵۴۳) نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند حسن درجہ کی ہے اور ابن خزیمۃ، حاکم اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ [2]