کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 133
فضائلِ تلبیہ :
بلند آواز سے تلبیہ کہنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا اورحکم دیا تھا کہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے کاحکم دیں۔ اس کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے حتیٰ کہ اسے ’’شعائرِ حج ‘‘میں سے قرار دیاگیا ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! مُرْ اَصْحَابَکَ فَلْیَرْفَعُوْا أَصْوَاتَھُمْ بِالتَّلْبِیَۃِ فَاِنَّھَا مِنْ شَعَائِرِ الْحَجِّ )) [1]
[1] یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کو زید بن خالد، ابوہریرہ اور سائب بن خلاد رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے مگر درحقیقت یہ تینوں حدیثیں ایک ہی حدیث ہے کیونکہ ان سب کا مخرج ایک ہی ہے مگر اختلافِ رواۃ کی وجہ سے یہ مختلف حدیثیں بن گئی ہیں:
۱۔ زید بن خالد کی حدیث کو ابن ماجہ (۲۹۲۳)ابن خزیمہ (۲۶۲۸) ابن حبان (۹۷۴) حاکم (۱/ ۴۵۰) بیہقی (۵/ ۴۲) احمد (۵/ ۱۹۲) اور عبد بن حمید نے ’’المنتخب من المسند‘‘ (۲۷۴) میں خلاد بن السائب کے واسطے سے زید بن خالد سے روایت کیا ہے۔ اس کو ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے مگر اس کی سند میں ’’المطلب بن عبداللہ‘‘ ہیں اور یہ بہت زیادہ تدلیس کرتے ہیں اور انھوں نے یہاں سماع یا تحدیث کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔
۲۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو احمد (۲/ ۳۲۵) ابن خزیمۃ (۲۶۳۰) حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی سند حدیث زید بن خالد والی ہی ہے مگر اس کے ایک راوی اُسامہ بن زید لیثی نے زید بن خالد کی بجائے ابو ہریرہ کہا ہے، نیز اس نے خلاد بن السائب کا واسطہ بھی حذ ف کر دیا۔ جبکہ پہلی حدیث کو سفیان ثوری بیان کرنے والے ہیں۔ نیز ’’صحیح ابن خزیمۃ‘‘ (۲۶۲۹) میں اور ’’بیہقی‘‘ میں شعبۃ نے بھی اس حدیث کو ثوری ہی کی طرح زید بن خالد ہی سے روایت کیا ہے۔ اور یہ تینوں ثقہ ہیں جبکہ اُسامہ بن زید کو اوہام ہوتے ہیں، لہٰذا ثقات کی مخالفت کی صورت میں اس کی حدیث معتبر نہیں ہے۔ (