کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 132
(( لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ )) [1]’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے۔‘‘
غرض یہ تمام الفاظ تلبیہ میں شامل ہیں لہٰذا ان سبھی کو زبانی یادکرنا اور بکثرت پڑھنا چاہیے۔
آدابِ تلبیہ:
مردوں کے لیے تویہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے مگر خواتین کو اجازت ہے کہ وہ اپنی آواز کو اس قدر دھیما اور پست رکھیں جسے وہ خود یا صرف ان کی ساتھی خواتین ہی سن سکیں۔ چنانچہ صحیح بخاری اور مسند احمد وطیالسی میں ابو عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا:
(( اِنِّيْ لَأَعْلَمُ کَیْفَ کَانَتْ تَلْبِیَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ثُمَّ سَمِعَھَا تُلَبِّيْ بَعْدَ ذَٰلِکَ،لَبّیْکَ … )) [2]
’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ اچھی طرح جانتی ہوں۔ پھر میں نے انھیں یہ تلبیہ (( لَبَّیْکَ اَللّٰھمّ لَبَّیْکَ۔۔۔ )) کہتے ہوئے سنا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مناسک میں لکھتے ہیں:
’’اَلْمَرْأَۃُ تَرْفَعُ صَوْتَھَا بِحَیْثُ تُسْمِعُ رَفِیْقَاتِھَا، و یُسْتَحَبُّ الْاِکْثَارُ مِنْھَا عِنْدَ اخْتِلَافِ الْاَحْوَالِ‘‘
(بحوالہ مناسک الحج للألباني، ص: ۱۸)
’’عورت اسی قدر آواز سے تلبیہ کہے کہ اس کی ساتھی خواتین ہی سن سکیں اور مختلف اوقات و حالات میں بکثرت تلبیہ کہنا مستحب ہے۔‘‘
[1] اس کو احمد (۱/ ۴۱۷) حاکم (۱/ ۴۶۱- ۴۶۲) اسی طرح ابن خزیمۃ (۲۸۰۶) نے بھی روایت کیا ہے۔ اس کو ابن خزیمۃ نے صحیح کہا ہے۔ حاکم نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور اس کی سند اسی طرح ہی ہے۔
[2] اس کو بخاری (۱۵۵۰) بیہقی (۵/ ۴۴، ۴۵) طیالسی (۱/ ۲۱۱) احمد (۶/ ۳۲، ۱۰۰، ۱۸۱، ۲۳۰، ۲۴۳ نیز ۲۲۹) اور ابو یعلی (۴۶۷۱) نے روایت کیا ہے۔