کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 130
تلبیہ یہاں تک تو میقات پر پیش آنے والی صورتِ حال کے بارے میں احکام ومسائل مذکور تھے۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ اپنے مناسبِ حال حج کی کسی ایک قسم کی نیت کریں اورتلبیہ کہنا شروع کردیں۔ ویسے موجودہ حالا ت میں زیادہ تر لوگ حجِ تمتُّع ہی کرتے ہیں اورقربانی کا جانور ساتھ نہ ہونے کی شکل میں افضل بھی یہی ہے، لہٰذا اس کے لیے میقات پر صرف عمرہ کی نیت سے (( لَبَّیْکَ الَلّٰھُمَّ عُمْرَۃً )) کہیں اور تلبیہ کہنے لگیں۔ مسنون تلبیہ: تلبیہ کے مسنون الفاظ کے بارے میں صحیحین، سنن اربعہ، بیہقی، موطا امام مالک، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلبیہ کہتے ہوئے سنا: (( لَبَّیْکَ الَلّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ )) [1] ’’میں حاضر ہوں۔ اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ تیراکوئی شریک نہیں۔ بے شک ہر قسم کی تعریف اور تمام نعمتیں تیرے ہی لیے ہیں
[1] موطأ (۱/ ۳۳۱) بخاری (۱۵۴۹) مسلم (۸/ ۸۷۔ ۸۸) ابو داود (۱۸۱۲) ترمذی (۸۲۵، ۸۲۶) نسائی (۵/ ۱۶۰۔ ۱۶۱) ابن ماجہ (۲۹۱۸) حاکم (۱/ ۴۵۰ مختصراً) بیہقی (۵/ ۴۴) احمد (۲/ ۲۸) اسی طرح اس کو دارمی (۲/ ۳۴) ابن الجارود (۴۳۳)ابن خزیمۃ (۲۶۲۱، ۲۶۲۲)طیالسی (۱؍۲۱۱)اورابویعلی (۵۸۰۴)نے بھی روایت کیا ہے۔