کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 128
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحج کو تشریف لائے اوربڑے غصے کی حالت میں میرے پاس آئے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے ناراض کیا ہے؟ اللہ اسے آگ میں داخل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میںنے لوگوں کو ایک حکم دیا مگر وہ اس کی تعمیل میں تردّد کر رہے ہیں۔ حالانکہ جو چیز مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ پہلے معلوم ہوجاتی تومیں قربانی ساتھ نہ لاتا بلکہ یہاں سے خریدتا اور عمرہ کر کے احرام کھول دیتا جیسے دوسرے لوگوں (تمتّع کرنے والوں )نے کیا ہے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’حجِ تمتُّع‘‘کی تمنا کرنے اورجن صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے انھیں عمرہ کر کے احرام کھول دینے اورحجِ قِران کی نیت فسخ کرکے حجِ تمتُّع میں بدل لینے کا حکم دینے کے پیشِ نظر کثیر اہلِ علم نے ’’حجِ تمتُّع ‘‘کو افضل قراردیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: نیل الأوطار: ۲/ ۴/۳۱۰۔ ۳۱۴، الفتح الرباني: ۱۱/ ۹۵۔ ۹۹) ویسے بھی آج کل پاک وہند، خلیجی ممالک یاعالَمِ اسلام بلکہ پوری دنیا سے آنے والے عازمینِ حج وعمرہ میں سے شاید ہی کوئی قربانی کاجانور ساتھ لاتا ہو، یہاں تک کہ جو لاسکتے ہیں وہ بھی نہیں لاتے۔ ایسی صورت میں حجِ تمتُّع ہی افضل ہے اورآسان بھی کہ مکہ مکرمہ پہنچیں، عمرہ کریں اوراحرام کھول دیں اوراحرام کی تمام پابندیوںسے آزاد ہوکر معمول کی زندگی گزاریں، عبادتِ الٰہی میںمشغول رہیں اور پھر یومِ ترویہ (۸/ ذوالحج) کو حج کا احرام باندھیں اورمناسکِ حج پورے کر کے دس ذوالحج کو احرام کھول دیں۔ پھر ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳، ذوالحج) کی رمی سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی آپ کاحج مکمل ہوگیا۔