کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 126
کے نزدیک اہلِ مکہ وحرم بھی حج قِران و حجِ تمتُّع بلاکراہت کرسکتے ہیں اور اس پر کوئی فدیہ اورمضائقہ نہیں ہے۔ (فقہ السنۃ سید سابق: ۱/ ۶۵۹ طبع دارالکتاب العربي، بیروت ) حجِ مفرد عام طور پر سعودیہ وحجازِ مقد س کے باشندوں اور خصوصاً اہلِ حرمِ واہلِ مکہ کے لیے آسان ہے کہ یومِ ترویہ (۸/ ذوالحج )کی صبح کواحرام باندھا ۔ عمرہ کرنے کا موقع ملا تو کرلیا ورنہ سیدھے منیٰ چلے گئے اور مناسکِ حج ادا کرلیے۔ اگر پہلے عمرہ نہ کر پایا ہو تو کبھی بعد میں کر لیا۔ اس حجِ مفرد میں قربانی بھی واجب نہیں۔ افضل حج : حج کی مذکورہ تینوں اقسام میں سے جائز تو تینوں ہی ہیں اورآسان ترین حجِ مفرد مگر افضل ترین قسم ’’حجِ تمتُّع‘‘ ہے بشرطیکہ کعبہ شریف کی طرف جاتے وقت قربانی کا جانور ساتھ نہ ہو لیکن اگر کوئی شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہو تو اس کے لیے حج قِران بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر قربانی ساتھ لائے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر قِران کیاتھا لیکن اس پر افسوس کا اظہار فرمایاکہ جوبات مجھے اب معلوم ہوئی ہے اگر اس کا علم پہلے ہو جاتا تو میں اپنے ہمراہ قربانی نہ لاتا اور عمرہ کر کے احرام کھول لیتا اور حجِ تمتُّع ہی کرتا، جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم اور سنن ابو داود میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَوْاِسْتَقْبَلْتُ مِنْ اَمْرِيْ مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ اَسُقِ الْھَدْيَ )) [1]
[1] اس حدیث کو بخاری (۷۲۲۹) ’’کتاب التمنی‘‘ مسلم (۸/ ۱۵۴۔ ۱۵۵) ابو داود (۱۷۸۴) ابن خزیمۃ (۲۶۰۶) بیہقی (۵/ ۱۹) اور طیالسی (۱/ ۲۱۸) نے روایت کیا ہے۔ یہی بات جابر، انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث میں بھی مروی ہے: ۱۔ حدیثِ جابر کو بخاری (۱۵۶۸) اور مسلم (۸/ ۱۶۳) وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ۲۔ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ کو بھی بخاری (۱۵۵۸، ۱۶۵۱) اور مسلم (۸/ ۲۳۳) وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ ۳۔ حدیثِ ابن عباس مسند احمد (۱/ ۲۵۳، ۲۵۹) میں ہے مگر یہ سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور یہ ضعیف ہے۔