کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 108
{اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ} ’’حج کے مہینے مقرر ہیں۔‘‘
ان مقررہ مہینوں کاذکر صحیح بخاری شریف میں موجود ہے کہ وہ شوال ، ذوالقعدہ اورعشرۂ ذوالحج ہیں۔[1]
میقاتِ مکانی:
میقاتِ مکانی سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں سے حج وعمرہ کے لیے احرام باندھا جاتا ہے اوراحرام باندھے بغیر حُجاج وعُمار کا وہاں سے گزرنا جائز نہیں۔ میقاتِ مکانی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ مختلف جگہیں مقرر فرمائی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
[1] یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور امام بخاری نے اس کو تعلیقاً (بلا سند) ذکر کیا ہے۔ امام شافعی نے ’’مسند‘‘ (۱۲۱) میں، حاکم (۲/ ۲۷۶) دارقطنی (۲/ ۲۲۶) اور بیہقی (۴/ ۳۴۲) نے اس کو موصولاً (سند کے ساتھ) روایت کیا ہے۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے۔ اور یہ ان سے تین چار سندوں سے مروی ہے۔ امام حاکم نے اپنی سند کو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ {اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاْتٌ} کی یہی تفسیر ابن عباس، ابن مسعود اورعبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ان کے یہ آثار دارقطنی اور بیہقی میں ہیں۔ {اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاْتٌ} کی یہ تفسیر بعض مرفوع روایات میں بھی آئی ہے۔ مرفوع روایات ابو امامہ، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ ابوامامہ کی روایت کو طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۱۶۰۷) اور ’’المعجم الصغیر‘‘ (۱/ ۶۶) میں روایت کیا ہے مگر اس کی سند معین بن مخارق کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ’’تفسیر‘‘ (۱/ ۲۴۳) میں اس کو ابن مردویہ کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کو موضوع کہا ہے۔ ابن عمر کی روایت کو سیوطی نے ’’الاوسط طبرانی‘‘ اور ابن عباس کی روایت کو ’’خطیب‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے دیکھیں: ’’الدر المنثور‘‘ (۱/ ۵۲۴) ان دونوں روایتوں کی اسنادی حیثیت کیسی ہے؟ اَللّٰہُ اَعْلَمُ۔