کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 105
نے اس شخص کو نذر پوری کرنے کاحکم نہیں فرمایا جس کے دو ہی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ پیدل کی بہ نسبت سوار ہوکر حج کرنا افضل ہے، اورپیدل چلنے کی نذر ترکِ افضل کولازم کرتی ہے لہٰذا اس نذر کوپوراکرنا واجب نہیں ۔ یا پھر اس لیے کہ وہ اپنی نذر پوری کرنے سے عاجز آچکا تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سوار ہونے کا حکم فرمایا۔ اس واقعہ میں یہی وجہ زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔ (فتح الباري: ۴/۶۹) معلوم ہوا کہ عام ارادۂ سفر تو کجا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پیدل چل کر جانے کی نذر ماننے والے کوبھی اس کے پورا کرنے کا حکم نہیں فرمایا۔ ایسے ہی صحیح بخاری ومسلم، سنن ابی داود وبیہقی، مسند احمد اورمستدرک حاکم میں ایک عورت کے پیدل کعبہ شریف تک جانے کی نذر ماننے کا واقعہ بھی مذکور ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے یہ نذر مان لی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے کے لیے اپنے بھائی کو بھیجا ،وہ گئے توان کے استفسار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لِتَمْشِ وَ لْتَرْکَبْ )) [1] ’’جتنا چل سکتی ہے چل لے اور(پھر)سوار ہو جائے۔‘‘ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نذر کے پورا نہ کرنے پر تین دن کے روزے (نذر پوری نہ کرسکنے کے کفارہ کی ایک شکل)کاحکم فرمایا۔ 5۔آج جب سواریاں عام اورسستی بھی ہیں جوکہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں، تو انھیں چھوڑ کر پیدل سفرِ حج اختیار کرنا اگر کفرانِ نعمت نہیں تو کم از کم یہ شکرانِ نعمت بھی نہیں، اوراس پر مستزاد یہ کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی شخص اگر حج وعمرہ کے طویل سفر پر کسی ملک سے پیدل نکلے گا تو یہ دور دراز کاسفر اس کے عمل کو صحافت(میڈیا) کی اپروچ سے نہیں بچاسکے گا۔ نتیجتاً اس میں
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری (۴/ ۷۹، ۸۰، ۱۱/ ۵۸۸، ۵۸۹)