کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 103
’’لایعنی امور اور فضول گفتگو کو ترک کردینا آدمی کے حسنِ اسلام کی علامت ہے۔‘‘[1] پیدل حج۔۔۔؟ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بعض لوگ پیدل جاکر حج وعمرہ اداکرنا زیادہ کارِ ثواب سمجھتے ہیں ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اگرچہ من کلّ الوجوہ نہیں تو من بعض الوجوہ غلط ہے : 1۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک ہمارے سامنے ہے جو کہ افضلیت کی دلیل بھی ہے اوریہ بات بلااختلاف معروف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل نہیں بلکہ سواری پرجاکر حج وعمرہ ادافرمایا تھا ۔ 2۔سواری پر حج کے لیے جانا دعا وابتہال اورذکرِ الٰہی کی کثرت میں معاون ہوتا ہے ۔ پیدل سفر کرنے والا تھکن سے چور ، ان امور میں سے کیا بجا لائے گا؟ 3۔منفعت بھی اسی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک پیدل جانے
[1] ۲۱۷) میں اور قضاعی (۱۹۴) نے روایت کیا ہے۔ ۳۔ حدیثِ زید بن ثابت کو طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۲/ ۴۳) میں اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔ ۴۔ حدیثِ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو شیخ شعیب نے ’’الکنی للحاکم‘‘ کی طرف، حدیثِ علی رضی اللہ عنہ کو ’’تاریخ حاکم‘‘ اور حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ’’ابن عساکر‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’تحقیق ریاض الصالحین‘‘ للشیخ شعیب الٔارناؤوط (۷۳)۔ ۵۔ زین العابدین کی مرسل روایت کو مالک (۲/ ۹۰۳) بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ (۴/ ۲۲۰) میں، ترمذی (۸/ ۲۳) عبدالرزاق (۷/ ۲۰۶) عقیلی، ابن ابی الدنیا (۱۰۷) اور قضاعی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ امام نووی نے اس حدیث کو’’ریاض الصالحین‘‘ ’’الاذکار‘‘ (۳۶۳) اور ’’الاربعون‘‘ (ص: ۱۰۵۔ شرح ابن رجب) میں حسن کہا ہے۔ شیخ شعیب نے شواہد کی بنا پر اس کو صحیح کہا ہے۔ شیخ البانی نے بھی’’صحیح الجامع‘‘ (۵۷۸۷) میں اس کو صحیح قراردیا ہے۔