کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 102
وتخریج کے ساتھ شائع ہوجائے توپھر مفید تر ہوجائے گی۔ اب دیکھیں کہ یہ سعادت کس کے مقدر میں لکھی ہے ۔[1]
المختصر سارا سفر ذکرِ الٰہی میں مشغول رہیں ، قصر وجمع یاصرف قصر کرکے اوقاتِ مقررہ پر باجماعت نماز یں اداکرتے جائیں ۔ لایعنی اورفضول گفتگو سے پرہیز کریں۔ یہ طرزِ عمل صرف سفرِ حج یاعام سفر میں ہی نہیں بلکہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی ضروری ہے کہ لایعنی امور اورفضول گوئی سے اجتناب کیاجائے ۔ یہ کسی مسلمان کے ’’حُسنِ اسلام‘‘کی علامت ہے جیسا کہ سنن ترمذی وابن ماجہ ، موطاامام مالک اورمسند احمد میں حدیث ہے :
(( مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ )) [2]
[1] اب اس کتاب کی تخریج بھی مولانا بستوی کے فاضل فرزند مولانا عبدالرحمن نے کردی ہے۔ [اور اب حال ہی (۲۰۱۱) میں مکتبہ اسلامیہ، لاہور کی طرف سے اس کا جدید ایڈیشن تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہوا ہے]
[2] یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کو ابوہریرہ، حسین بن علی، زیدبن ثابت، ابوبکر، علی بن ابی طالب اور حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح یہ علی بن حسین (معروف بہ زین العابدین) سے مرسلاً بھی مروی ہے:
۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ترمذی (۲۳۱۷) ’’الزھد‘‘ ابن ماجہ (۳۹۷۶) ’’الفتن‘‘ طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۳۶۱) میں، بیہقی نے ’’الآداب‘‘ (۱۰۱۲) میں اورقضاعی نے ’’مسند الشہاب‘‘ (۱۹۲) میں روایت کیا ہے۔ ابن عدی (۴/ ۱۵۸۸) ابن ابی الدنیا نے ’’الصمت وآداب اللسان‘‘ (۱۰۸) میں اور ابو الشیخ نے ’’طبقات المحدثین‘‘ (۴/ ۲۸۷) میں اس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے۔ اسی طرح ابن ابی الدنیا (۷۵۰) نے اس کو تیسری سند سے بھی روایت کیا ہے مگر یہ دونوں سندیں سخت ضعیف ہیں۔
۲۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی حدیث کو احمد (۱/ ۲۰۱) عقیلی (۲/ ۹) ابن عدی (۳/ ۹۰۷، ۶/ ۲۳۴۱) طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ (۲/ ۱۱۱) میں، ابن جمیع نے ’’معجم الشیوخ‘‘ (